1950 سے اب تک پاکستان 29 بڑی سیلابی آفات سے تباہ ہو چکا ہے۔ ملک نے سیلاب سے بچاؤ کے ہزاروں اقدامات پر اربوں روپے خرچ کیے، پھر بھی نقصانات بڑھتے رہے۔ حالیہ تباہ کن آفتِ ہمیں اپنی سیلاب سے بچاؤ کی حکمت عملی کو از سرنو سوچنے کا موقع فراہم کررہی ہے کیونکہ قومی سطح پر یہ بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ہر ایک کی اجتماعی ناکامی ہے جس نے اس کی تشکیل میں حصہ لیا، اس کے لیے فنڈز فراہم کیے اور اس پر عمل کیا۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات، ہمارے پالیسی سازوں اور نفاذ کرنے والوں کو تباہی کے بنیادی تصور،خطرے اور خطرے کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیلاب کی طرح کچھ خطرات ہیں جنہیں دسترس میں لانا ناممکن ہے۔لہٰذا صرف پشتوں او ر بندوں کی تعمیرواحد حل نہیں ہے۔ اس لئے آفات کے مقابلے میں ناتوانیوں کو کم کرکے مدافعتی صلاحیتیں بڑھانا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ خطرات کو آفات بننے سے روک سکتی ہیں۔ افسوس کی حد تک سیلاب سے نمٹنے کی ہماری حکمت عملی میں عدم توازن کا شکار ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ماضی کی آفات کا جائزہ مندرجہ ذیل پانچ عوامل کو ظاہر کرتا ہے جو کمزوریوں کا سبب بن رہے ہیں ۔ غربت، جہالت، ناقص گورننس، ناقص منصوبہ بندی/عملدرآمد، اور غیر ملکی امداد یافتہ/ڈیزائن کردہ حل۔ مثال کے طور پر، پاکستان کی آفات اور اس کے سیاق و سباق کے تجزیے جامع نظر آتے ہیں، لیکن انکے پاس ان کا ایک ہی آسان حل ہے ،مٹی اور پتھر کا استعمال۔ مثلاً بند اور میگا ڈیم وغیرہ۔ وہ بڑی بڑی مشاورتی فرموں کے ذریعے ڈیزائن اور پھر لوگوں پر مسلط اور بڑے بڑے ٹھیکیداروں کے ذریعے تعمیر کیے گئے ہیں جن کے پیچھے لالچی حکمران ہیں ، جن کی مقامی سطح پر کوئی دلچسپی یا لینا دینا نہیں اور ایسے منصوبوں پر تیاری صفر ہے۔ وہ عطیہ دہندگان جو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے بہت زیادہ قرض فراہم کرتے ہیں، وہ منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے عمل میں کمیونٹی کی شرکت پر بہت زور دیتے نظر آتے ہیں ، لیکن اکثر اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کر جاتے ہیں۔ وہ کمیونٹیز انفراسٹرکچر کی تباہی کا شکار ہوتی ہیں، ان سے کبھی بھی شرکت اور رضامندی کے لیے نہیں پوچھا جاتا۔ حالیہ سیلاب کی تباہی ہمارے سامنے اجتماعی ناکامی کی ایک اور بہترین مثال ہے۔ انتظامات کی ناکامی، جو ہر تین سال بعد ہوتی ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے ڈیٹاسیٹس کا تجزیہ اور سیلاب کے انتظامات پر سرمایہ کاری واضح طور پر اقدامات اور نقصانات کے مابین باہمی تعلق کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی حکمت عملی بیان کردہ مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یہ این ڈی ایم اے(نیشنل ڈیزاسٹر مینجمننٹ اتھارٹی )، ایف ایف سی ( فلڈ ریلیف کمیشن ) اور غیر ملکی عطیہ دہندگان(ڈونرز ) یعنی ایشیائی ترقیاتی بنک، ورلڈ بنک اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں وغیرہ کی ویب سائٹس پر دستیاب پیچیدہ منصوبوں اور رپورٹس کا ایک آسان فہم نتیجہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ 1950 سے 2020 کے درمیان پاکستان نے 28 میگا سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کیا۔ مجموعی طور پر اس عرصے کے دوران 198,000 گاؤں اور 616,558 کلومیٹر کا علاقہ بری طرح متاثر ہوا۔ اور کل معاشی نقصان تقریباً 50 بلین ڈالر تھا۔ ایف ایف سی کے مطابق 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس میں تقریباً 1985 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، 1.6 ملین گھر تباہ ہوئے، 160,000 کلومیٹر پر محیط 17,553 دیہات متاثر ہوئے تھے۔ جہاں تک موجودہ آفت کا تعلق ہے، تو وفاقی حکومت نے اس کے معاشی اثرات کا تخمینہ 10 بلین ڈالر یا جی ڈی پی کے 3 فیصد تک لگایا ہے۔ اگر بارشوں کا سلسلہ مزید ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے اور ندی نالوں میں طغیانی کی نئی لہر آتی ہے تو نقصانات مزید بڑھ جائیں گے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 30 لاکھ لوگ آفات سے متاثر ہوتے ہیں اور 77 فیصد آبادی معاشی طور پر متاثر ہوتی ہے اور مجموعی سالانہ نقصان تقریباً 1.8 بلین ڈالر یا جی ڈی پی کا 0.8 فیصد ہوتا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے کیونکہ انسانوں میں اس سے سیکھنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ تیس سال پہلے، 9 ستمبر 1992 کو ایک اور بہت بڑی سیلابی آفت نے تقریباً آدھے ملک اور کشمیر کو تباہ کر دیا تھا، 2,000 افراد ہلاک ہوئے تھے، تقریباً 13,500 گاؤں بہہ گئے تھے ، لگ بھگ 9 لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور 0.4 ملین خاندانوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ماہرین پاکستان کو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ تباہی کا شکار ممالک میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود مذکورہ بالا بھاری نقصانات ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، FFC کے مطابق 2020 تک ملک نے بالترتیب 799 اور 245 چھوٹے اور بڑے ڈیم بنائے تھے، جب کہ 94 زیر تعمیر تھے۔ 2015 تک، پاکستان نے سیلاب سے بچاؤ کے 2,742 بند بھی تعمیر کیے تھے۔ 1978 اور 2008 کے درمیان، ملک نے 25.348 بلین سے زیادہ روپے خرچ کئے۔ مجموعی طور پر، ہم نے 1978 اور 2020 کے درمیان سیلاب سے نمٹنے کے اقدامات پر 45 بلین سے زیادہ روپے خرچ کیے، پھر بھی مجموعی نقصانات 50 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ قرضوں کی واپسی کی لاگت اور دیگر اخراجات جیسے سماجی اور نفسیاتی اثرات وغیرہ کو بھول جائیں کیونکہ ان کا شمار کرنا ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ، ہر سیلاب کی تباہی کے بعد امداد اور بحالی کی کوششوں پر ہونے والی لاگت کو بھی شمار نہ کریں۔ البرٹ آئن سٹائن کے نزدیک ’’بیوقوفی ایک ہی عمل کو بار بار دہر ا تی ہے ، اور توقع کرتی ہے کہ اس بار نتائج مختلف ہونگے ‘‘ ہم گزشتہ 75 سالوں سے مسلسل اپنی بیوقوفی کا عمل دہرا رہے ہیں۔ عام طور پر، ہم عقلی برتاؤ میں معقولیت کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی دوا کام نہیں کرتی ہے، تو ہم ڈاکٹر کے پاس واپس جاتے ہیں اور اکثر ڈاکٹر نسخہ بدل دیتا ہے۔ ہم ایسی مصنوعات خریدنا بند کر دیتے ہیں جو متوقع مقاصد پورے نہیں کرتیں۔ ہمارے پاس بہت سی فہیم لوک کہاوتیں بھی ہیں جن سے سیکھا جاسکتا ہے، جیسے ،دودھ کا جلا چھاچھ بھی چھان کر پیتا ہے ، اور ' بروقت ایک ٹانکہ ، بعد کے نو ٹانکوں سیبچاتا ہے‘ (تیاری اور خطرے میں کمی)۔ لیکن بنیادی مسئلہ ، سیلاب کی تباہی کے انتظامات کرنے اور سیلاب سے متاثرین کے مابین تعلقات میں خلا کی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ بعدازاں،سیلاب کی تباہ کاریوں میں نام نہاد امداد وصول کرنے والے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ثابت ہوتے ہیں، اور سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔(جاری ہے) ۔