عام انتخابات ہوں یا مقامی ، جو سچ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت سیاسی رہنماؤں اور انتخابی نظام پر بہت کم اعتماد کرتی ہے۔ انتخابات کے نتائج اس کڑوے سچ کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ تازہ ترین مثال خیبر پختونخوا میں حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ہیں جن میں صرف 40 فیصد رجسٹرڈ رائے دہندگان نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کی زحمت کی۔ عالمی شہرت یافتہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس کی ایک رپورٹ کے مطابق ووٹنگ رحجانات کے حوالے سے پاکستان 196 ممالک میں 153 ویں نمبر پر ہے جبکہ خواتین کی ٹرن آؤٹ میں شرکت کے حوالے سے تمام ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے۔اگر ہم رائے دہی کے لیے اہل افراد کی بنیاد پر انتخابی نتائج کا حساب لگائیں تو عام انتخابات 2018 کا ٹرن آؤٹ 51.5 فیصد سے کم ہو کر 40 فیصد رہ جائے گا کیونکہ تقریباً 30 ملین افراد ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں تھے اور ان میں سے 20 ملین یا دو تہائی خواتین تھیں۔عجیب بات ہے کہ رجسٹریشن کی بہت سی مہموں کے باوجود تقریباً 10 ملین خواتین اب بھی ووٹر لسٹ سے باہر ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، 60% افراد نے بطور ووٹر الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا۔ یہ حقیقت انتخابی نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ حال ہی میں ہونے والے کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں کسی بھی فاتح کو اکثریتی ووٹ نہیں ملا۔ مثال کے طور پر، تحصیل چیئر اور نائب چیئر کی نشستوں پر کامیاب ہونیوالے 19 امیدواروں نے کل ووٹوں کے 5% سے 10% کے درمیان ووٹ حاصل کیے، جب کہ 13 جیتنے والوں نے رجسٹرڈ ووٹوں کے 11% سے 15% کے درمیان ووٹ حاصل کیے۔صرف کامیاب امیدواروں نے 16% اور 25% کے درمیان ووٹ حاصل کیے۔ کے پی کے کے پانچ بڑے شہروں میں، جیتنے والی جماعتوں نے اوسطاً رجسٹرڈ اور ڈالے گئے ووٹوں کا بالترتیب صرف 6.7% اور 20.5% حاصل کیا۔ کچھ ماہرین کا استدلال ہے کہ کم ٹرن آؤٹ سے غریبوں کے مقابلے میں امیروں کو زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہوتا ہے کیونکہ سیاسی اشرافیہ عوامی دبائوکی پرواہ نہیں کرتی اور مقبول پالیسیاں بنانے کے بجا ئے حکومتیں صرف اپنے حامیوں کو فائدہ پہنچانے پر اکتفا کرتی ہیں۔یہ بات پاکستان پر صادق آتی ہے۔ملک پر حکمرانی کرنے والی تقریباً ہر پارٹی نے گورننس اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے کبھی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی۔ غیر ملکی امداد اور قرضے پروگراموں پر خرچ کرنے کی بجائے اشرافیہ کے ذریعے ہڑپ کیے جا رہے ہیں۔ یہ عوام میں ملکی معاملات سے بیزاری ، سیاسی اشرافیہ پر اعتماد میں کمی اور ٹرن آؤٹ میں گراوٹ کا سبب بنتا ہے۔ یہ ایک گھن چکر بن چکا ہے۔ مسلسل گرتا ہوا ٹرن آؤٹ سیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر کسی ملک میں 80% بالغ آبادی مسلط شدہ سیاسی ٹولے کو بار بار مسترد کر دیتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نئے کرداروںکی بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔پاکستان میں تحریک انصاف کا ظہور اور ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے عروج پر غور کریں۔ اس کے علاوہ، امریکہ اور یورپ میں دائیں بازو کے رہنماؤں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ موجودہ جماعتیں ناکام ہوگئی ہیں۔ اسلیے اگر ماہرینِ سیاسیات مغرب میں جمہوریت کے زوال کی نشاندہی کر رہے ہیں تو اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔کے پی کے بلدیاتی انتخابات کی طرف واپس آتے ہیں۔ عوام نے سیاسی اشرافیہ کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ کوئی فاتح نہیں تھا۔ تھوڑے فرق سے سب ہار گئے۔ حیرت انگیز طور پر جو لوگ خود ہار گئے تھے وہ اپنے سے ہارنے والوں کی شکست کا جشن مناتے پائے گئے۔اگرچہ موجودہ سیاسی اشرافیہ سے خیر کی توقع نہیں ،سول سوسائٹی کو بہر طوراصلاحاتی ایجنڈا تیار کرنا چاہیے اور بامعنی تبدیلی کے لیے اجتماعی طور پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ بحث شروع کرنے کے لیے کچھ نکات ذیل میں تجویز کیے گئے ہیں۔ ایک، اشرافیہ کی سیاسی نظام پر گرفت کو کمزور کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔اس پر پالیسی سازوں ماہرین اور عوام کے درمیان تقریباً اتفاق رائے پایا جاتاہے۔ یہاں تک کہ بعض سیاسی رہنما اشرافیہ کی گرفت کے خلاف بات کرتے نظر آتے ہیں۔ دو، زیادہ تر پارٹی لیڈر ہر الیکشن میں ایک سے زیادہ سیٹوں سے جیتے ہیں اور چونکہ وہ صرف ایک سیٹ رکھ سکتے ہیں، اس لیے انہیں باقی سیٹوں سے استعفیٰ دیناپڑتا ہے۔ نتیجتاً، ہر عام انتخابات کے فوراً بعد، ہم ضمنی انتخابات کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ اس غیر ضروری تکرار پر بھاری رقم ضائع ہوتی ہے۔ اس پریکٹس پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ تین، متناسب نمائندگی کے نظام سے اکثریتی انتخابی نظام کو تبدیل کریں۔ متناسب نمائندہ نظام زیادہ جمہوری اور زیادہ نمائندہ ہے۔ متناسب نمائندگی کے نظام میں ٹرن آؤٹ اکثریتی نظام سے زیادہ رہا ہے۔چار، چونکہ سیاسی جماعتوں کا کام کرنا 2017 کے الیکشن ایکٹ کا لازمی حصہ بن چکا ہے، اس لیے الیکشن کمیشن کو پارٹی انتخابات اور انکی کارکردگی کے جائزے کیلئے خصوصی ونگ قائم کرنا چاہیے۔پانچ، کوٹے اور سینیٹ کی نشستوں کو پْر کرنے کیلئے بالواسطہ انتخابات کی تمام شکلیں ختم ہونا چاہئیں۔ اس سلسلے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کوٹہ کی تمام نشستوں کو جنرل نشستوں پر متناسب طور پر تقسیم کرکے کثیر رکنی حلقہ بندیوں کا اعلان کیا جائے۔ یہ نظام 2001-05 کے دوران بلدیاتی انتخابات کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور اسے پنجاب کے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اپنایا جائے گا۔ کثیر رکنی حلقے انتخابی حلقوں کی بہتر خدمت کرتے ہیں۔ہماری سیاست کو انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا اصلاحات کو اگر تندہی اور دانشمندی سے لاگو کیا جائے تو غالباً اس نظام پر عوام کا اعتماد بڑھے گا جس سے انتخابی نظام میں عوام کی شرکت میں اضافہ ہوگا۔