لاہور(انور حسین سمرائ) پنجاب کی تبدیلی سرکار نے آٹھ ماہ بعد احساس کرتے ہوئے شہباز شریف کے قریبی اور معتمد خاص افسروں کو پنجاب میں گورننس بہتر کرنے کیلئے اہم انتظامی عہدوں پر فائز کردیا ۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کی حکومت کو شروع دن سے بیوروکریٹس کی طرف سے حکومتی امور میں عدم دلچسپی اور عدم تعاون کی شکایات تھیں جبکہ بیوروکریسی کو پنجاب میں حکومتی جماعت کے کئی طاقت کے مرکز پر شکایات تھیں ،کسی بھی سینئر بیوروکریٹ کو سیاسی مداخلت پر انتظامی آرڈر بار بار تبدیل کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے وہ تذبذب کا شکار تھے اور گورننس متاثر ہوتی تھی۔تفصیل کے مطابق پنجاب کی تبدیلی سرکار نے ابتدائی طور پر صوبہ میں گورننس کرنے کیلئے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی بی ٹیم کے کچھ بیورو کریٹس کو چنا تھا تاکہ عوام کے مسائل بھی حل ہوں اور یہ تاثربھی نہ جائے کہ حکومتی پالیسوں پر عملدرآمد کیلئے سابق ٹیم کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ لیکن ذرائع کے مطابق یہ بیور وکریٹس وزیر اعظم عمران خان کے وژن اور تبدیلی کے نعرے کے مطابق ڈلیور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے جس کی کئی وجوہات تھیں۔ بیوروکریٹس کے مطابق گورننس کرنے کیلئے سیاسی لیڈرشپ کی طرف سے رہنمائی اور وژن کی ضرورت ہوتی ہے جس کی شدت سے پنجاب میں کمی محسوس کی گئی ۔ نیب کی طرف سے پروایکٹو اپروچ اور بعض وزرا کی طرف سے احتساب کی دھمکیاں بھی گورننس میں بڑی رکاوٹ کے طور پر پیش آئی۔ بیورکریٹس کے مطابق پنجاب حکومت نے صوبہ میں گورننس کی بہتری اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے اب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی کور بیوروکریٹس ٹیم پر انحصار کیا جبکہ گورننس میں مسائل پیدا کرنیوالے بیوروکریٹس کو صوبہ بدر کیا گیا ہے ۔ پنجاب حکومت نے احمد جاوید قا ضی، نبیل اعوان، عبداﷲ سنبل، نسیم صادق کو اہم صوبائی انتظامی سیکرٹریز کے عہدوں پر فائز کیا ہے جو شہباز شریف دور میں اہم پوسٹوں پر تعینات تھے ۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بجائے اسکے کہ صوبائی حکومت سابق دور کی بیوروکریٹس کی ٹیم پر انحصار کرتی ان کو سابق دور میں غیر جانبداررہنے والے قابل، ایماندار اور محنتی افسروں کو وفاق سے لانا چاہئے تھا جو تبدیلی کے حمایتی بھی تھے تاکہ صوبہ میں گورننس میں بہتری لائی جاسکتی اور عوام کو ریلیف اور ترقیاتی منصوبہ بندی کا ازسرنو جائز لیکر بڑھے بڑھے ترقیاتی منصوبہ جات شروع کئے جاسکتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور وہ افسر آج بھی کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔ بیور وکریٹس کے ایک دوسرے گروپ کے مطابق سیاسی حکومت کو صوبہ کے انتظامی امور میں مختلف طاقت کے مرکز کی بلاوجہ مداخلت کو روکنا ہوگا کیونکہ موجود حالات میں وزیر اعلیٰ کے دفتر سمیت تین چار جگہوں سے احکامات جاری کئے جاتے تھے جو انتظامی افسروں کیلئے فیصلہ کرنے میں مشکلات پیدا کرتے تھے اور گورننس متاثر ہوتی تھی اور ڈیلیور نہ کرنے کو تقویت ملتی ہے ۔اب تبدیلی سرکار کو ایوان وزیر اعلیٰ کے علاوہ دیگر طاقت کے مراکز کی گورننس میں مداخلت کو فوری طور پر بند بھی کرنا ہوگا ورنہ انتظامی عہدوں پر تبدیلی بھی مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے گی۔وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کی مستقل تقرری نہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ 8ماہ گزرنے کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب کوئی ایسا افسر تلاش کرنے میں ناکام لگتے ہیں جو حکومتی جماعت کے ارکان اسمبلی کو مطمئن بھی رکھے اور گورننس میں بہتر اور عملی پالیساں متعارف کرانے میں صوبائی حکومت کو رہنمائی دے سکے جس سے حکومت کا امیج بہتر ہوسکے جو کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عام عوام میں دن بدن متاثر ہورہا ہے ۔