رسول بخش پلیجو جیسے بے مثال دانشور، عظیم مصنف، عظیم ادبی نقاد، انسان دوست اور انقلابی رہنما کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے اور ان کے پرجوش پیروکاروں کی طرف سے منعقد کی جانے والی مختلف تقریبات کی دعوتوں کے باوجود میں اپنی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سیسندھ نہ جاسکا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا سندھ جانے کی خواہش اتنا ہی زور پکڑتی گئی۔ بالآخر میں نے پروگرام بنالیا اور پتن ترقیاتی تنظیم کی ایک پرجوش ٹیم میرے ساتھ تھی۔ سندھ کے کھیت کھلیانوں، سڑکوں اور بازاروں کے نظارے کے علاوہ اس سفر میں سول سوسائٹی کی تنظیموں، ادیبوں، سماجی اور سیاسی کارکنوں سے ملاقات کا ارادہ تھا۔ ہم نے اپنی کچھ پارٹنر کمیونٹیز کا بھی دورہ کیا۔ راستے میں جنوبی پنجاب میں کچھ سرائیکی قوم پرستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ہفتے بھر کے اس سفر میں ہم رحیم یار خان، مورو، حیدرآباد، مٹھی، نو کوٹ، کیٹی بندر، گھارو، ٹھٹھہ اور سکھر ؎گئے۔ ایسا اچھے معیار کے انٹر سٹی سڑکوں اور موٹر ویز کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سندھیوںجیسی مہمان نوازی کوئی نہیں کر سکتا۔ مذہبی ہم آہنگی اور سماجی سکون جو سندھ کو نصیب ہے وہ بے مثال ہے۔ مٹھی کا خاص طور پر ذکر کرونگا جو تقریبا 250,000 نیک روحوں کا شہر تھرپارکر ضلع کی ایک تحصیل اور اس کا دارالحکومت ہے۔ مٹھی ان چند خطوں میں سے ایک ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں - کل آبادی کا صرف 23 فیصد۔ دوسرے لفظوں میں، ہندو آبادی 77 فیصد حصہ کے ساتھاکثریت میں ہے۔ ہمارے مقامی میزبان زیادہ تر ہندو تھے اور انہیں اس بات پر فخرتھا کہ انہیں اپنے مذہب کی وجہ سے کبھی کسی برے تجربے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اگرچہ غربت ، عدم مساوات طبقاتی اور صنفی بنیادوں پر استحصال اور محکومیت کی پیداوار ہیں اور یہ دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، لیکن تھر میں یہ برہنہ انداز میں رائج ہے۔ انسانی ترقی کی شرح سندھ کے تمام اضلاع سے کم ہے۔ 87 فیصد آبادی غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور اس میں بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے جبکہ شرح خواندگی 20 فیصد سے بھی کم۔ غذائیت کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہر سال ضلع میں تقریباً 1500 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ایک مقامی رکن اسمبلی کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں حکومت سندھ نے ضلع میں ترقیاتی منصوبوں پر 15 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ مزید برآں، وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق 2008 سے اب تک انفراسٹرکچر کی ترقی پر 70 ارب روپے اور بینظیر انکم سپورٹ کی مد میں 387 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں لیکن 2005 کے بعد سے معیار ِزندگی کے انڈیکس میں یہاں 50 فیصد کمی آئی ہے۔ ایف اے او نے حکومت سندھ کے ساتھ مل کر تھر میں پانی کی فراہمی کے لیے 500 سے زائد آر او سسٹم نصب کیے ہیں۔ ہماری ٹیم نے چند کا دورہ کیا ، وہ سب بند تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ تنصیب کے دو سال کے اندر غیر فعال ہو چکے تھے۔ کیا ستم ظریفی نہیں کہ اکیلا تھر ہی دنیا میں کوئلے کے ساتویں بڑے ذخائر کا مالک ہے اور اس وقت اربوں روپے مالیت کی بجلی (600 میگاواٹ )قومی گرڈ کو فراہم کر رہا ہے لیکن اس کے دو تہائی سے زیادہ دیہاتوں میں بجلی نہیں ہے۔شہرے اور قصبے اکثر اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس ماحولیات نقصان الگ پہنچا رہے ہیں۔ مقامی سول سوسائٹی کے کارکنوں کے مطابق تقریباً 40 این جی اوز تھر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فعال ہیں۔ حکومت کی غیر ضروری پابندیوں اور فنڈز کی کمی کے باوجود ان میں سے بیشتر نے نچلی سطح پر کام جاری رکھا جس سے ان کی ساکھ بڑھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی مداخلت کے بغیر خطے میں غربت اور محرومیوں کی صورتحال اور بھی خراب ہو سکتی تھی۔ تھر میں انسانی صورت حال ابتر ہوتی چلی گئی لیکن یہاں کے باسی سب سے زیادہ پرامن اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہیں۔ تکلیف دہ اور اذیت ناک زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے اپنی اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش جاری رکھی۔ جو کوئی تھر جاتا ہے وہ سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کو نظر انداز نہیں کرپاتا۔حفیظ تونیو نے 21 دسمبر 2014 کو اپنے ایک مضمون میں لکھا "غربت جرم کو جنم دیتی ہے، لیکن تھر میں نہیں۔ خشک سالی کے شکار اس ضلع میں جرائم کی شرح 2% ہے۔ وہ اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ ان کی واحد دولت، ان کے مویشی ،چرواہے کے بغیر کھیتوں میں چرتے نظر آتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ناکہ ہے اور نہ ہی پولیس گشت کا کوئی تصور۔" ایک اور معروف انگریزی روزنامے نے تھر کو 2018 میں پاکستان کا مستقبل قرار دیا۔ "عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غربت اور بے روزگاری جرائم کو جنم دیتے ہیں - لیکن تھریوں نے بظاہر اس نظریہ کو مسترد کر دیا ہے۔" ایک مقامی سکول ٹیچر صدیق کے مطابق، ’’جرم بے روزگاری یا غربت سے نہیں سماجی ٹوٹ پھوٹ سے جنم لیتا ہے۔ جب روایتی سماجی معاونت کا نظام ختم ہوجاتا ہے، تو ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔" وہ اپنے خیالات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تھر میں ہندو اور مسلمان سماجی اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تھر کے لوگوں میں امن اور رواداری موجود ہے اور اس سے جرائم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سماجی نظام دائم تبدیلی کی حالت میں رہتے ہیں اور تبدیلی کوئی بھی سمت لے سکتی ہے۔ لہٰذا، سول سوسائٹی اور ریاست دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ تبدیلی کو سب کے لیے منصفانہ، مکمل اور باوقار زندگی کی طرف لے جائیں۔ لطیف سائیں، بلھے شاہ، خواجہ فرید، رسول بخش پلیجو اور شیخ ایاز کی تعلیمات تھر اور پورے پاکستان کو پر امن اور جرائم سے پاک رکھنے کے لیے روشنی ، سمت اور توانائی فراہم کرتی ہیں۔ دانشور، سی ایس اوز اور سماجی و سیاسی تحریکیں جیسے سندھیانی، عوامی تحریک اور دیگر ترقی پسند گروپ مل کر مٹھی کے سکون کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تھر کی اداسی دور کرنے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔