پاکستان میں ووٹرز کی مرضی اور انتخابات کے نتائج کو متاثر کرنے کے لیے 160 سے زائد غیر قانونی اور غیر اخلاقی ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ 20 ضمنی انتخابات کے تجزیے سے، حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات کے پچھلے راؤنڈز میں کسی نہ کسی شکل میں الیکشنز ایکٹ 2017 کے تقریباً ہر سیکشن اور ہر اصول کی خلاف ورزی کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کا عمل دخل وہاں پر زیادہ وسیع پیمانے پر ہوتا ہے جہاں طاقت اور پیسہ یکجا ہو جائیں۔ پتن ترقیاتی تنظیم کی ملک میں دھاندلی کے طریقوں پر تحقیق کا بنیادی نکتہ سامنے آیا ہے۔ جس کے مطابق زیادہ تر حلقوں میں دھاندلی کے حوالے سے فریقین ایک رضامندانہ توازن پر اتفاق کر چکے ہیں۔ ہماری رائے میں ملک میں دھاندلی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے شاید یہی بڑی وجہ ہے۔ انتخابات کے ہر مرحلے پر اس توازن کو ایک خاص احتیا ط کے ساتھ کم سے کم سطح پر برقرار رکھا جاتا ہے اور حد درجہ کوشش کی جاتی ہے کہ طے شدہ توازن سے تجاوز نہ کیا جائے۔ سروے سے مزید ظاہر ہوتا ہے کہ دھاندلی کے 160 ذرائع اور غیر اخلاقی طریقوں میں سے 73 صرف پولنگ کے دن ہی آزمائے جا سکتے ہیں۔ پولنگ سے قبل کا دورانیہ جو پولنگ سے ساٹھ سے نوے دنوں پر محیط ہے (انتخابات کی نوعیت پر منحصر ہے)۔ انتخابات کے اس مرحلے میں دھاندلی کے 50 طریقے استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔سروے میں دھاندلی کے 26 ایسے ذرائع کا بھی پتہ چلا ہے جوبین الانتخابات کے دوران اعلیٰ سطح کے فیصلہ ساز کرداروں کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ ہم دھاندلی کی اس شکل کو دھاندلی کے مسلسل ذرائع کے طور پر لیں گے کیونکہ یہ دھاندلی باقی ماندہ ذرائع پر مستقل اثر انداز ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔ تاہم، ڈیٹا سیٹس اور لٹریچر ریویو کا جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعلیٰ اور درمیانی سطح پر دھاندلی کچھ من پسند سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے قریبی تعاون کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری، اس کے ارکان اور نگراں سیٹ اپ کی تشکیل پر سیاسی ماہرین کے قریبی مشاہدے کی اشد ضرورت ہے۔ 1988 سے مسلسل یہی طرز عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جب کہ اسٹیبلشمنٹ ایک مستقل اور بااثر پارٹنرکے طور پر موجودہ نظر آتا ہے ،جبکہ ہر الیکشن سے پہلے سیاستدانوں کا ایک نیا سیٹ اپ اپنے پیش رو کی جگہ لینے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ بااثر کرداروں کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کا یہ ماڈل نچلی سطح تک سرایت کر رہا ہے، جہاں جہاں چھوٹی چھوٹی دھاندلی کی شکلیں، اجتماعی سطح پر گہر ا اثر ڈال رہی ہیں۔ سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کمیونٹی اور برادری کی سطح پر دھاندلی کو’’کچھ بھی غلط نہیں ہے‘‘ کہہ کر ایک طرح سے قبولیت بخشی جارہی ہے۔ بھارت اور ایران کے برعکس جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال ہوتی ہے، پاکستان کا انتخابی نظام ہر قدم پر انسانوں کے ہاتھو ں میں ہے اور قانون کے تحت ہر انتخابی عملے کا حکومت کا ملازم ہونا ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انتخابی ڈیوٹی کے دوران اس پر اثر انداز ہو نے کے اچھے خاصے امکانات موجود رہتے ہیں اور انتخابی اہلکاروں اور انتظامی عملے کی ایک بڑی اکثریت پر کسی نہ کسی مرحلے پر انتخابی فرائض سے روگردانی کیلئے اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال یعنی ای وی ایم ممکنہ طور پر 163 میں سے 130 دھاندلی کو ختم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی پریذائیڈنگ آفیسر کو پولنگ، گنتی اور رزلٹ کی تیاری کے دوران ،کسی مخصوص امیدوار کی مدد کرنے کے لیے رشوت دی جاتی یا حکم دیا جاتا ہے، یا حد بندی یا انتخابی فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے کے دوران وہ اپنے سینئرز کے حکم ملتا ہے تو وہ لامحالہ اسے پورا کرے گا۔ لیکن ٹیکنالوجی (ای وی ایم مشین ) کے استعمال سے انسانی دخل اندازی پر مبنی 101 دھاندلی کے ذرائع کو ختم کر دے گی۔ یہاں تک کہ فارم 45 بھی ای وی ایم کے ذریعہ تیار کیا جائے گا ،اور اگر کسی کو اس کے الیکٹرانک آؤٹ پٹ کے بارے میں شک ہے تو ، کاغذی بیلٹ کو تصدیق کے لئے شمار کیا جاسکتا ہے۔ سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ دھاندلی کے بڑے عوامل میں سے ایک لا علمی ہے۔ لہٰذا دھاندلی اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے تمام مد مقابل جماعتوں کے کارکنوں کو ہر قسم کی بددیانتی سے لاعلم /باخبر کرنا ہوگا۔ سفارشات: PATTAN انتخابات میں انسانی عمل دخل کو کم سے کم کرنے کی سختی سے سفارش کرتا ہے جس کا تصور الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 94 اور 104 ، ECP کے تیسرے اسٹریٹجک پلان 2019-23 میں پہلے ہی کیا گیا ہے۔ پتن سیاسی قیادت سے پارٹی کی اندرونی جمہوریت کو گہرا کرنے اور نچلی سطح پر پارٹی چیپٹر قائم کرنے کی اپیل کرتا ہے۔سیاسی طبقے کو الیکشن جیتنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے تعاون نہیں لینا چاہیے۔ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ انتخابی عمل کے ہر مرحلے پر انتخابی عملے کو سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ سے پاک کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ باخبر ووٹر بڑی حد تک دھاندلی کے مجرموں کو روک سکتا ہے۔ اس لیے ای سی پی پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹر ایجوکیشن پروگرام کو بہتر بنائے۔ ہم سیاسی جماعتوں پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے الیکشن/پولنگ ایجنٹ پولنگ کے عمل اور دھاندلی کے تمام حربوں سے سے پوری طرح آگاہ ہوں۔