وہ عوامل جنھوں نے صوفی تحریک کو جنم دیا یہ وہ خطرناک عناصر تھے جس کے طوفان بلاخیز سے بارہویں صدی عیسوی کی پوری مسلم سوسائٹی دوچارتھی۔جس کے نتیجے میں صوفی ازم بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں منظم ہوچکی تھی اورایک مستقل صوفی مدرسہ تیار ہوچکاتھا جس کے دوعظیم بزرگ شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ اور حضرت ابو حفص عمر سہروردی علیہ الرحمہ ہیں۔اور اسی سہروردی سلسلے کے ایک مضبوط کڑی حضرت سید مخدوم جلال الدین احمد بخاری سرخ پوش علیہ الرحمہ ہیں جن سے جلالی سلسلے کی بنیاد پڑی اور سہروردیہ سلسلے کی ایک نئی شاخ معرض وجود میں آئی۔آپ سلسلہ سہروردیہ کے ایک بہت ہی معروف بزرگ او رمبلغ اسلام ہیں۔انھیں سرخ پوش اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ ہمیشہ سرخ چوغہ اوڑھے رہتے تھے ۔اصل نام جلال الدین ہے اورجلال اعظم،میرسرخ پوش بخاری وغیرہ یہ سب آپ کے القاب ہیں۔ ولادت:آپ کی پیدائش5ذی الحجہ 595ھ میں بخارا(ازبکستان)میں ہوئی۔آپ سید علی المعید(یا ابوالمؤید) کے بیٹے اور سید جعفرحسین کے پوتے ہیں۔ابتدائی تعلیم والدکی سرپرستی میں گھر پر ہی ہوئی اور سات سال کی چھوٹی عمر میں آپ علم سے فارغ بھی ہوگئے ۔بچپن میں ہی آپ سے کرامتوں کا ظہور شروع ہوگیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ عنفوان شباب ہی میں 1500 سے زائد پڑھا لکھا طبقہ آپ کو اپنا پیشوااورروحانی رہنما تسلیم کرچکے تھے ۔آپ نے پوری زندگی سیروسیاحت اور تبلیغ و ارشادمیں گذاری اوراس دوران متعددقبائل مثلاً سومرو، ساما، چدھار، سیال، داہر، مزاری،اور وارین وغیر آپ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوے ۔بخارامیں آپ نے حضرت سید قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر سیدہ فاطمہ سے شادی کی جن سے دواولادیں سید علی اورسید جعفر ہیں۔پہلی بیوی کی وفات پر آپ اپنے دونوں صاحبزادوں کے ہمراہ بخارا سے بھکار،پنجاب636ھ میں چلے آئے ۔ فضل وکمال:آپ ایک بڑے عالم،فقیہ،زاہد،صالح اور صاحب کرامت بزرگ تھے ،آپ سے ایک دنیا نے اکتساب فیض کیا اور آپ کا یہ فیض آپ کی نسل سے تاقیامت جاری وساری ہے ،آپ وقت کے سب سے بڑے داعی اور سفیر اسلام تھے ۔آپ کے ہاتھوں پر متعدد قبائل نے اسلام قبول کیا۔آپ نے پوری زندگی دعوتی وتبلیغی دورے اور وعظ و ارشاد اور خدمت خلق میں گذاردی،ابتدائی تعلیم آپ نے گھر ہی اپنے والد بزرگوارکی سرپرستی میں حاصل کی اور سات سال کی عمر میں ہی فارغ التحصیل ہوگئے ۔آپ پیدائشی ولی تھے بچپن ہی سے آپ کے ہاتھو ں کرامتوں کا ظہور شروع ہوگیا تھا۔(تذکرۃ السادۃ البخاریۃ بقلم علی اصغر گجراتی) آپ نے منگول کے چنگیزخان سے بھی ملاقات کی اور انھیں اسلام کی دعوت دی لیکن بدلے میں اس نے آپ کو زندہ جلادینے کا حکم صادرکیا۔مگر رحمت خداوندی کچھ یوں شامل حال تھی کہ بھڑکتی آگ یکایک گلابوں کی شکل اختیارکرگئی پھرکیاتھا چنگیزخان مسلمانوں اور اسلام کے تئیں بالکل موم ہوگیاحتی کہ سید جلال الدین بخاری علیہ الرحمۃ کو اپنی بیٹی نکاح میں دینے کی پیش کش کی۔ابتداء ً آپ نے یہ پیش کش ٹھکرادی لیکن کوئی ہاتف غیب سے کہہ رہاتھا کہ ’’اس کی نسل بہت آگے بڑھے گی اور خوب پھلے پھولے گی اور اس میں قطب بھی پیداہوں گے ‘‘جب آپ نے یہ ندا سنی تو فورا ًشادی پر رضامند ہوگئے ۔اور آگے چل کر کچھ ایسا ہی ہوا کہ اس نسل میں بہت سے اہل اللہ پیداہوئے اور بہت سے سادات گھرانے آج بھی پنجاب،سندھ پاکستان اوراترپردیش، حیدرآباد ہندوستان کی ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن کی اصل اوچ شریف ہے ۔ آپ نے دوسری شادی سید بدرالدین بن صدرالدین الحسینی کی صاحبزادی سیدہ زہرہ سے کی جن سے سید محمد غوث ہیں۔سیدہ زہرہ کی وفات پر آپ نے سید بدرالدین کی دوسری بیٹی سے عقدفرمائی جن سے سید احمد کبیر پیداہوئے جو مخدوم جہانیان کے والد بزرگ وار ہیں۔ جب شمس الدین التمش کا بیٹا نصیرالدین محمد سلطنت دہلی کے حاکم بنے اسی دورمیں سید جلال الدین بخاری اوچ شریف وارد ہوئے تھے ۔اس وقت اس کانام وہاں کے ہندوحاکم کی نسبت سے دیوگڑھ تھا۔وہاں پہنچتے ہی آپ تبلیغ وارشاد میں لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ قطاردرقطار آپ سے فیض لینے آنے لگے اور کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔جس سے راجا دیو سنگھ کافی مصیبت میں پڑگیا اور بدلے میں اس نے آپ کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔پھر کیا ہوا کہ آپ نے اپنی کرامت سے اسے اوچ سے اڑاکر ماروار پہنچادیا۔اس سلسلے میں اور بھی کئی کرامتوں کا ذکر ملتاہے جو آپ کی طرف منسوب ہیں۔آپ کی عظمت وبزرگی کا یہ عالم تھا کہ حاکمین سلطنت آپ کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور آپ کی تعظیم بجالاتے اور آپ کی بارگاہ نیاز میں ازخود پہنچ کر سرجھکاتے ۔ تبلیغ وتربیت خلفائ:آپ نے بالخصوص سندھ،جنوبی پنجاب میں اسلام کی اشاعت کی اور سمورا اور ساما وغیرہ کئی قبیلے آپ کے ہاتھوں داخل اسلام ہوئے ۔آپ نے اوچ میں ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا۔آپ بغرض تبلیغ ایک بار بخارا چلے گئے تھے لیکن دوبارہ 1244ء میں واپس آکر مستقل یہیں قیام پذیر ہوگئے ۔آپ سلسلۂ سہروردیہ کے جلالی فرع کے بانی ہیں جو آپ ہی کے نام سے منسوب ہے آپ کے اس سلسلے کے کچھ خلفاء گجرات چلے گئے اور بہت مشہور ہوئے ۔تیرہویں صدی عیسوی کے عظیم صوفی تحریک کے پیشوا اور رہنما جو جنوبی ایشیاء کی نمائندگی کرتے تھے اورچاریار(چارساتھی) کے لقب سے مشہور ہوئے یہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر پاکستان،اور جلال الدین بخاری اوچ شریف،اور بہاء الدین زکریا ملتان،اور لال شہباز قلندر سیہون ہیں۔تاریخ میں آتاہے کہ 17بڑے قبائل بابا فرید الدین گنج شکر کے ہاتھوں داخل اسلام ہوئے ۔بعض قبائل یہ ہیں: کھرلس،دھودھیان، ٹوبیان اور واٹو(واٹو یہ ایک راجپوت قبیلہ تھا)۔جلال الدین بخاری نے اولا سومرو اور ساما سند ھ کے دوبڑے قبائل کو داخل اسلام کیااورپھر جلد ہی سیال،چدھار،داہراور وارن جنوب پنجاب کے قبیلے اور سند ھ کے قبیلے مزاریس اور دوسرے کئی بلوچی قبائل آپ کی کوششوں سے داخل اسلام ہوئے ۔ وفات:آپ 19جمادی الاولی 690ھ مطابق 20مئی1294ء کو اوچ شریف،پنجاب میں غیاث الدین بلبن کے دور حکومت میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے اور سوناک بیلا میں جو اوچ سے تین میل کے فاصلے پر ہے مدفون ہوئے ۔لیکن گاگرہ ندی جو آپ کے مقبرے سے بالکل متصل بہتی تھی اس لیے آپ کے اقارب نے آپ کے جسم مبارک کو اوچ شریف منتقل کردیااور حضرت صدرالدین راجن قتال کے مقبرے کے پاس دفن کردیاپھر 1027ھ میں محمد نصیرالدین کے بیٹے شیخ حامد صاحب سجادہ نے باقی ماندہ کو نکال کر دوبارہ وہاں دفن کیا جہاں آج آپ کا مزارمبارک موجودہے ۔1261ھ میں نواب محمد بہاول خان ثالث نے اس میں کچھ ترمیم اور ایک تالاب اور کنواں بھی بنوایااور اس لیے اس احاطے کو خان سراء بھی کہاجاتاہے ۔1300ھ میں نواب صادق محمد خان رابع نے اس کی از سرنو مرمت کی اور کچھ توسیع بھی کی۔ملک اور بیرون ملک کے کثیرخلق خدا آج بھی اس خانقاہ سے کافی گہری عقیدت رکھتے ہیں ۔(مصادر ومراجع: جامع السلاسل ،اخبار الاخیار، بحرالانساب، ہدایۃ السعدائ،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ، ایضاح لطافۃ المقال ،الفرع النامی)