Widows and Daughters۔ ۔ ۔ جس ادار ے نے شائع کی ہے ، اس کانام نہیں لکھ رہا ۔ہاں،مصنفہ خاتون کا نام لکھنا توخیر ضروری ہے۔۔۔Anna Suvorovaکا تعلق ماضی کے اشتراکی روس سے ہے۔مگر ان کی بیشتر کتابوں کا تعلق مسلم دنیا سے ہے۔ بلکہ A Study of Urdu Romanceجیسے مشکل ،حساس موضوع سمیت کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ابتدا ء میں جو میں نے لکھا کہ جس ادارے نے یہ کتاب شائع کی ہے ،اس کا نام نہیں لکھ رہا تو اس میں دہائیوں قبل کی ایک یادتازہ ہوگئی۔ کہ ہمارا اردو پرنٹ میڈیا کا کتابوں سے تعصب کا یہ عالم تھا کہ مشہور شاعر اور صحافی مرحوم جمیل الدین عالی نے ایک بڑے اخبار میں اپنے ہفتہ وار کالم میں ایک کتاب کی توسیع میں مصنف اور کتاب کی تعریف میں چند سطریں لکھ دیں۔ اگلے ماہ انہیں جب اپنے کالموں کا چیک ملا تو چار سطروں کے حساب سے ۔ ۔ ۔ غالباً 50روپے کاٹ لئے گئے کہ یہ اشتہار کے زمرے میں آتے ہیں۔اللہ اس اخبا رکو طویل حیاتی اور اس کے مرحوم ہونے والے مدیر کو اپنے قرب میں جگہ دے کہ برسہا برس یہ سلوک ہمارا اردو میڈیا کتابوں کے ساتھ کرتا رہا۔ مگر ماشاء اللہ اب تو ہر اخبار میںہر روز کم از کم آدھا یا پون صفحہ ’’کتب‘‘ کو دیا جاتاہے۔ایک عام تاثر یہ ہے کہ لوگ کتابیں خرید کر نہیں پڑھتے۔ذاتی تجربے اور دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ وطن عزیز میں ، خاص طور پر ادبی و کتابی میلوں میں روز افزا اضافہ ہے اور ہاں،نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والی نئی نسل کی کتب بینی سے رغبت بڑھی ہے۔ ابھی ہفتہ بھر پہلے کراچی کے ایکسپو سنٹر میں جو پانچ روزہ کتاب میلہ ہوا ، اُس میں50کروڑ روپے سے زیادہ کی کتابیں فروخت ہوئیں۔یہ لیجئے ، آپ کہیں گے کہ بھئی ہر کالم میں تمہید پہ تمہید کی عادت کب چھوٹے گی۔اب یہ اور ایک اور عادت ایسی لگی ہے جن کے لئے میں اس مصرعے کا سہارا لوں گاکہ: چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی Anna Suvorova کی کتاب کا نام ہی اتنا دلچسپ ہے کہ بلابمقابلہ پہلا صفحہ کھولنے کے بعد آخری صفحے پر ہی جا کر رکا۔ Widows and Daughtersبہ زبان اردو’’بیوائیں اور بیٹیاں‘‘ اوریہ بھی ایشیا کے مشہور مشہور زمانہ سیاسی خاندانوں کی ۔۔۔ بھارت کی اندرا گاندھی ،پاکستان کی بے نظیر بھٹو،سری لنکا کی بندرا نائکے ، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ خواتین کے اقتدار میں آنے کا اپنا حادثاتی سبب بتایا ہے۔کہ اگر ان مشہور و معروف خواتین کے والد اور شوہر قتل یا اچانک اس دنیا سے رخصت نہ ہوتے تو شائد یہ صدرِ مملکت اور وزارت عظمیٰ کے عہدہ ٔ جلیلہ پر رونق افروز ہی نہ ہوپاتیں۔ ہاں،اپنے والد اور شوہر کے سبب ’’نام‘‘ کی حد تک ان کی شہرت ضرور ہوتی۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ تیسری یا چوتھی پیڑھی کے آتے آتے ایشیا کے ان عظیم حکمرانوں کے پوتے،پوتیاں ،نواسے،نواسیاں ایسے بھی ہیں کہ جن کے نام ’’گمنامی‘‘ کے زمرے میں ہی آئیں گے۔کہ بہر حال ایشیاکے ان حکمرانوںکی ساری نہیں تو بیشتر بیگموں اور بیٹیوں میںبھی بہر حال اتنی صلاحیت اور قابلیت تو تھی کہ وہ ایک نہیں دو ،بلکہ تیسری بار وزیر اعظم، صدر مملکت اور اپنی اپنی پارٹیوں کی سربراہ بنیں۔ ہمارے ہاںبالخصوص برصغیر پاک و ہند میں خاندانی یا وراثتی قیادت کا کریڈٹ تو نہرو خاندان کو جائے گا کہ آج کے مودی کے بھارت کے بانی جواہر لال نہروبلاشبہ ایک عظیم سیاسی رہنما ہی نہیں ،ایک اسٹیٹسمین اوردانشور بھی تھے۔خود جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو بھی بھارتی کانگریس کے بانیوں میں سے تھے اور آزادی کی جنگ میں انہوں نے بھی برسوں قید بھگتی۔ موتی لال نہرو کی دو اولادیں تھیں۔ایک تو جواہر لال نہرو اور دوسرے ان کی بہن وجے لکشمی پنڈت ۔ وجے لکشمی پنڈت ایک پڑھی لکھی رنگین مزاج خاتون تھیں۔ خاندان کی مخالفت کے باوجود انہوں نے ایک مسلمان سیاسی لیڈر سید حسین سے شادی کی تھی۔ اپنی قابلیت کے سبب اقوام متحدہ میںبھارت کی نمائندگی بھی کی۔ وجے لکشمی پنڈت کی کوئی اولاد نہیں تھی جبکہ جواہر لال نہرو کی صرف ایک بیٹی اندرا گاندھی تھیں۔ جواہر لال نہروکی بیگم بھی کانگریس میں ویمنز ونگ کی رہنما تھیں۔اور ایک وقت تو وہ آیا جب جواہر لال نہرو ،اُن کی بیگم اور ان کی بیٹی بیک وقت ہندوستان کی مختلف جیلوں میںنظر بند تھے۔جیل کے دنوںمیں جواہر لال نہرو نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے نام جو خط لکھے وہ خود اپنی جگہ ایک کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔ پی پی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو ،اقتدار سے محرومی کے بعدپنڈی جیل کی نظر بندی کے دور میں اپنی سب سے بڑی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے نام تاریخی خطوط لکھا کرتے تھے۔ My Dearest Daughter میں بھٹو صاحب کئی باراپنی تحریر میں اعتراف کرتے ہیں کہ وہ جواہر لال نہرو کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ بے نظیر بھٹو کے نام پنڈی جیل سے خط لکھتے ہوئے انہوں نے اندرا کے نام نہرو کے خطوط کاحوالہ دیتے ہوئے اپنی مخصوص روایتی معتبرانہ بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خط میں اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کا اندرا گاندھی کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور پڑھا لکھا ہونے کابڑے فخر سے ذکر کیا ہے۔ جواہر لال نہرو جہاں اپنی شخصیت میں بڑے سحر انگیز تھے وہیں اُن کی ذاتی زندگی بڑے المیوں میں گذری۔اُن کی بیگم کا انتقال طویل بیماری کے بعد ہوا۔خود اندرا گاندھی نے اپنے والد جواہر لال نہرو کی مخالفت کے باوجود ایک پارسی فیروز گاندھی سے جو شادی کی اس کا انہیں ساری زندگی دکھ رہا۔فیروز گاندھی سے اندرا گاندھی کے دو بیٹے ہوئے۔ ۔ ۔ راجیو اور سنجے ۔ سنجے کا انتقال نوجوانی میں ہی ایک حادثے میں ہوا۔ (جاری)