گزشتہ روز لاہور گیا تو شہر میں الحمراء کی طرف سے فوک موسیقی کی پچاس سالہ خدمات اور ستارہ امتیاز ملنے کی خوشی میں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے اعزاز میں 29 مارچ 2019ء کو تقریب پذیرائی کے حوالے سے بینرز نظر آئے ۔اس سلسلے میں الحمراء کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اطہر علی خان ‘ ڈائریکٹر ذوالفقار ذلفی اور پروگرام آفیسر نیاز حسین لکھویرا سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی صرف وسیب ہی نہیں پاکستان کا اثاثہ بھی ہیں ۔ان کی پذیرائی در اصل الحمراء کی پذیرائی ہے۔ بینرز پڑھ کر خوشی ہوئی کہ 18 اپریل 2017ء کو اسی الحمراء میں ہم نے لالہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا تو الحمراء میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، میڈیا سے بھی گفتگو کا اہتمام تھا ‘ الیکٹرانک میڈیا کے کچھ دوستوں نے شکوہ کیا کہ ہمارا تعلق بڑے اداروں سے ہے‘ ہمارے بلانے پر آپ نہیں آئے جبکہ ایک سرائیکی اخبار کی تقریب کیلئے چلے آئے تو لالہ نے کہا کہ میرے وسیب کے اخبار نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا ہے تو کیا میں نہ آتا ؟ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ 90ء کے عشرے میں لالہ کا جب عروج تھا تو ہماری درخواست پر انہوں نے جھوک میلہ خانپور میں شرکت کی اور خانپور اسٹیڈیم تو کیا درختوں پر بھی لوگ تھے ۔ بعد ازاں قومی و عالمی پریس نے جب بھی لالہ سے سوال کیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا ایونٹ ؟ تو انہوں نے کہا کہ ’’ جھوک میلہ خانپور ‘‘ ، جہاں قریباً 2 لاکھ افراد نے شرکت کی ۔ حکومت پاکستان کی طرف سے 23 مارچ کو عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کو ستارہ امتیاز دیا گیا تو میں نے فون پر مبارکباد دی اور کہا کہ ہم ملتان میں آپ کے اعزاز میں تقریب رکھنا چاہتے ہیں تو لالہ نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ‘ ہسپتال میں ہوں ‘ دعا کریںٹھیک ہو جاؤں ، سر کے بل آؤں گا ۔ میں نے لالہ کے دوست پروفیسر عامر فہیم سے بھی مشاورت کی اور لالہ کے پرستار اور سانول سنگت کے بانی رہنما حکیم جاوید ہاشمی ‘ حبیب اللہ خیال اور احسان اعوان کے ساتھ ساتھ لالہ کے ہزاروں پرستار ان کی آمد کے منتظر ہیں اور ان کی صحت یابی کیلئے دعا کر رہے ہیں ۔ یہ بات سب مانتے ہیں کہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی اچھے فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی ہیں ‘ اپنے ملک پاکستان اور اپنے وسیب سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے عزت ‘ دولت ‘ شہرت سب کچھ دیا ہے۔ روزنامہ 92 نیوز کے قارئین کے نالج اور تاریخ کے طالب علموں کو بتانا چاہتا ہوں کہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی 28 اگست 1949ء کو عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے ‘ خاندان کے دوسرے افراد ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے مگر انہوں نے خاندان کی مرضی کے خلاف آبائی پیشے سے بغاوت کی اور موسیقی کی دنیا میں آ گئے۔ جو شروع سے ہی ان کے وجود میں بسی ہوئی تھی ۔ اسکول میں ترانے، نعت شریف اور نظمیں کہتے تھے ۔ کالج میں تعلیم کے دوران بھی اپنا سارا وقت موسیقی کے پرستاروں میں گزارا ۔1972ء میں ریڈیو پاکستان بہاولپور میں گانے کا موقع ملا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ریڈیو بہاولپور سے ملنے والا 25 روپے کا چیک میں نے محفوظ کر رکھا ہے ‘ اگر اس کا کوئی مجھے 25 لاکھ بھی دے تو تب بھی نہ دوں گا۔لالہ کو پوری دنیا سے لاتعداد ایوارڈز ملے مگر لالہ نے ہمیشہ کہا میرا اصل ایوارڈ میرے لوگوں کی محبت ہے۔ ایک غیر ملکی صحافی نے آواز میں درد کے بارے میں پوچھا تو لالہ نے کہا میرے وسیب میں دکھ ہی دکھ ہیں ، پانی تک نہیں تو پھر آواز میں درد نہ ہوگا تو کیا ہوگا؟ لالہ نے 1975ء میں ٹیلی ویژن پر طارق عزیز کے پروگرام ’’ نیلام گھر کو اپنی درد بھری آواز کے ذریعے چار چاند لگائے۔ اس کے بعد شہرت ان کے تعاقب میں ہوئی ۔ 1977ء میں چار کیسٹ ریکارڈ کرائے جو ملک میں زیادہ تعداد میں فروخت ہونے والے البم بن گئے۔اس کے بعد کیسٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ آڈیو اور ویڈیو کیسٹ ریلیز ہوئے ، ان کے البمز کی تعداد 400 سے زائد ہے اور وہ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سات زبانوں میں پچاس ہزار سے زائد گیت ریکارڈ کرائے مگر 90 فیصد سے زائد گانے سرائیکی میں ہیں ۔ 1994ء میں آپ کو سب سے زیادہ آڈیو البم ریکارڈ کرانے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا ، لالہ نے کیسٹ ٹیکنالوجی کو بام عروج تک پہنچایا ، یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ سرائیکی گائیکی کی وجہ سے لالہ کو اور لالہ کی وجہ سے سرائیکی کو بہت شہرت ملی ۔ بلوچ رہنما رؤف ساسولی نے کہا کہ سرائیکی لیڈروں سے عیسیٰ خیلوی کا کام بڑھ کر ہے۔ سرائیکی فوک کے عظیم گائیک عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی گیتوں اور غزلوں کی شہرت کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض ہی نہیں پوری دنیا میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں‘ اسرائیل و فلسطین کے علاوہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے اپنے فن کا مظاہرہ نہ کیا ہو ۔عطا اللہ خان نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کے شعبے میں بھی کام کیا اور کئی فلموں زندگی ، قربانی ، دل لگی اور ترازو میں ادکاری کی مگر فلموں کی ناکامی کے بعد انہوں نے اپنی توجہ گیتوں پر مرکوز کر دی ۔ فلم ٹھگ بدمعاش اور منڈا بگڑا جائے میں پلے بیک سنگر کی حیثیت سے گانے ریکارڈ کرائے ۔ 1991 ء میں حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی آپ کودیا، لالہ نے ملکہ برطانیہ کوئین الزبتھ سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں آپ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور ایوارڈز دیئے گئے ۔ حال ہی میں 23 مارچ 2019 ء کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے فن کے شعبے میں بہترین خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز عطا کیا ۔ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی سے ان کے فن کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں خود کو بڑا گائیک نہیں سمجھتا ، ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’ نہیں محتاج زیور کا ، جسے خوبی خدا نے دی ‘‘ ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی دھنوں پر پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ساتھ انڈیا کے فنکاروں نے بھی گایا ۔ ان کے آنے کے بعد وسیب کے فنکاروں کی ایک کھیپ تیار ہوئی ہے اور شعر و نغمے کی سرزمین میانوالی میں نیازی خاندان سے تعلق رکھنے والے لاتعداد فنکار پیدا ہوئے ۔ لالہ عطا اللہ نے سرائیکی شاعری اور شاعروں کو بھی نام دیا ۔ فاروق روکھڑی ‘ سونا خان بے وس ‘ ملک آڈھا خان ‘ مجبور عیسیٰ خیلوی ‘ افضل عاجز،مظہر نیازی اور ان جیسے ہزاروں شاعر عطا اللہ خان کی وجہ سے وسیب میں مشہور ہوئے ۔ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی وسیب کے واحد فنکار ہیں جن پر سب سے زیادہ لکھا گیا ، کتابیں شائع ہوئیں ، اخبارات اور رسائل میں بھی بہت مضامین آئے ، دنیا میں جہاں بھی فوک موسیقی کا تذکرہ ہوگا تو لالہ کا نام سر فہرست ہوگا اور ریسرچ سکالر ان پر پی ایچ ڈی کریں گے ۔