3 جون 1947ء کے منصوبہ کے تحت پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کے تعین کے لئے ایک باؤنڈری کمشن تشکیل دیا جانا تھا۔ قائداعظم کی خواہش تھی کہ برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے لا ممبر کو کمشن کا سربراہ بنایا جائے۔ لیکن وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کی ایما پر برطانوی حکومت نے ریڈ کلف کو باؤنڈری کمشن کا سربراہ بنایا۔ وہ برطانوی ہائی کورٹ کے جج تھے اور ایک عام تاثر یہ تھا کہ وہ ایک معزز اور قابل آدمی ہیں، ہر قسم کے تعصبات سے بالا ہیں اور انہیں حکومت ہند کے داخلی معاملات اور ہندوستانی جماعتوں سے کوئی سروکار نہیں لیکن قائداعظم کو پہنچاننے میں دیر نہ لگی اور وہی ریڈ کلف اپنے تاثر کو قائم نہ رکھ سکا۔ 47 سالہ ریڈ کلف نے اس سے قبل کبھی ہندوستان کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اس امر کو اس کے انتخاب کی خوبی بتایا گیا کہ ہندوستان میں سیاسی قیادت سے براہ راست تعلق نہ ہونے کے باعث ریڈکلف غیر جانبداری کے تقاضے پورے کر سکیں گے۔ البتہ یہ بات بھی اتنی ہی اہم تھی جسے نظر انداز کر دیا گیا کہ ہندوستان کے سیاسی، تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حالات سے مکمل طور پر نابلد ہونے کے باعث ریڈکلف اس اہم ذمہ داری کے لیے قطعی طور پر ناموزوں تھے۔ یہ درست ہے کہ ریڈکلف ہندو ، مسلم ، سکھ غرض کہ ہندوستان کے کسی مذہبی گروہ کے بارے میں دوستانہ یا مخاصمانہ جذبات نہیں رکھتے تھے لیکن برطانیہ کی اشرافیہ میں رسوخ اور ربط ضبط کے باعث ان کی واضح ترجیح برطانوی مفادات کا تحفظ تھی۔ قانون آزادی ہند مجریہ 1947ء میں گوداسپور کو پاکستان میں شامل کیا گیا لیکن بدنیتی کے ساتھ اس کی تحصیل پٹھان کوٹ کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا تاکہ ریل اور سڑک کے ذریعے ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے ساتھ مواصلات جاری رکھ سکے۔ویسے بھی بھارتی حکومت براہ راست اس کی دعویدار نہ تھی اور یوں دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل تنازع شروع ہوا جو آج تک حل نہ ہو سکا۔ باؤنڈری کمشن میں چار جج شامل تھے۔ ان میں سے مسلمان جج جسٹس دین محمد اور جسٹس منیر جبکہ ایک ہندو جج جسٹس مہاجن اور جسٹس تیجا سنگھ ، جن کا تعلق ضلع گوداسپور سے تھا، شامل تھے۔یہ ابتداء میں ہی طے پاگیا تھا کہ جسٹس محاجن اور جسٹس دین محمد اجلاس کی صدارت کریں گے اور ریڈ کلف کو رپورٹ دیتے رہیں گے۔ کمشن کا اہم کام ہندوستان کی تقسیم کے منصوبہ کے تحت ایسے مسلم اور غیر مسلم اکثریتی متصل علاقوں کا تعین کر کے پنجاب کی دونوں طرف کی سرحد کا تعین کرنا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن درپردہ بھارتی مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں نہایت مستعد تھا لہٰذا اس کی زیر ہدایت ریڈ کلف نے کمشن کی کارروائی کو کمشن کے دوسرے دونوں اراکین سے اکثر و بیشتر مخفی رکھا۔ اس وقت ہندووں اور سکھوں نے بھی گورداسپور کو پاکستان میں شامل کرنے کی مخالفت کی اور قادیانیوں نے جسٹس تیجا سنگھ کے ذریعے گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کرنے کیلئے دباؤ ڈالا اور انہوں نے جسٹس تیجا سنگھ کی حمایت حاصل کر لی۔ ریڈ کلف نے ایک مرحلے پر علاقے کا فضائی سروے کرنے کیلئے وائسرائے ہند کا طیارہ والٹن ایئرپورٹ بھیجا ۔ اس کے پائلٹ نے بتایا کہ فضائی سروے نہیں ہو رہا کیونکہ موسم ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف کو بتادیا ہے کہ گورداسپور ہندوستان میں شامل ہوگا۔ یہ صورتحال جان کر جسٹس دین محمد نے نواب افتخارالحسن ممدوٹ سے مشورہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ قائد اعظم ؒ کو اس بارے میں آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ ان کے ہمراہ دہلی چلیں ۔ جسٹس دین محمد اور نواب افتخارالحسن ممدوٹ قائد اعظمؒ سے ملے اور ان کو وائسرائے کی سازش سے آگاہ کیا۔ قائد اعظمؒ نے کہا کہ جنٹلمین میں کبھی زندگی میں یو ٹرن نہیں لیتا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو پاکستان میں شامل کرنے کا اعلان کرتے وقت تحصیل پٹھان کوٹ کو ضلع گورداسپور سے الگ کر کے ہندوستان میں شامل کردیا۔ ایوارڈ کا اعلان 17 اگست 1947ء کو بذریعہ ریڈیو کیا گیا جس نے سب مسلمانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ شکرگڑھ تحصیل کے ایک حصہ کے سوا گورداسپور کا پورا ضلع ہندوستان کو مل گیا بعینہ امرتسر کا پورا ضلع، بیاس اور ستلج پار کے تمام مسلم اکثریتی علاقے جن میں فیروز پور، زیرہ، مکھتا سر اور فاضلکا کی تحصیلیں بھارت کو دے دی گئیں۔ کمشن کے فیصلہ سے مسلمانوں کو بے شمار جانی، مالی حتیٰ کہ عزت و آبرو کے لْٹ جانے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پنجاب میں لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ غلط علاقائی تقسیم سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ بقول جسٹس منیر ’’اگر یہ ایوارڈ قانونی تھا تو اس میں قانونی فیصلے کی ہر صفت مفقود تھی اور اگر یہ سیاسی تھا پھر انصاف حق پسندی اور غیر جانبداری کا دعویٰ کیسا؟ یہ کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ ہندوستان انگریزوں کی ملکیت تھا اور ان کے وائسرائے نے اسے جسے چاہا دے دیا۔‘‘ قبل ازیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظمؒ کو تجویز پیش کی تھی کہ انہیں ہندوستان کے ساتھ پاکستان کا بھی گورنر جنرل بنا دیا جائے تاہم قائد اعظم ؒ نے وائسرائے کے عزائم بھانپ لئے اور اس تجویز کو سختی سے منع کر دیا۔ قائدؒ کا کہنا تھا کہ اگر وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بات مان لیتے تو پاکستان بنتے ہی ختم ہو جاتا۔ جن حالات میں ایوارڈ شائع ہوا اور جس سے ماؤنٹ بیٹن اور بھارتی درپردہ سازش آشکار ہوتی ہے اس صورتحال میں تمام مسلمانوں کی طرح قائداعظم بھی مضمحل تھے۔ آپ نے فرمایا ’’اگرچہ ہمارے پاکستان کو گھائل کر کے اس کی قطع و برید کر دی گئی ہے تاہم ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ جو علاقے ہمیں دئیے گئے ہیں ان میں رہ کر آزادی سے متمتع ہوں بہ نسبت اس کے کہ ایک متحد ہندوستان میں جہاں ہندوؤں کی حکومت ہو اور ہم غلامی کے جوئے کے نیچے مصائب برداشت کریں‘‘