تقریباً دس سال بعد، مارچ 1977 میں ملک کو ایک اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک نو جماعتی اتحاد ، پاکستان نیشنل الائنس ، فوجی جرنیلوں کی مدد سے مسٹر بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوا۔ کوئی تعجب نہیں کہ پی این اے کے رہنما ضیاء کی حکومت میں شامل ہوگئے۔ لیکن جلد ہی، وہی جماعتیں، نیز پارٹی (پی پی پی)، جسے انہوں نے چند سال قبل ہی ختم کر دیا تھا، 1983 میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک (ایم آر ڈی) تشکیل دی۔ تحریک کو بے دردی سے کچل دیا گیا، لیکن اس نے جنرل ضیاء کو لاچار بنا دیا ، اتنا لاچار کہ فوجی طیارے کے ذریعے سفر کے دوران ہوا میں ہی ماردیا جائے، اسے کس نے مارا؟ 1988 اور 1999 کے درمیان چار حکومتوں کو برطرف کیا گیا اور ہر بار اپوزیشن جماعتوں نے فوج کے ساتھ تعاون کیا۔ نئی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ، نواز شریف نے 15ویں آئینی ترمیم کے ذریعے متنازعہ قانون سازی کے ذریعے امیر المومنین بننے کا سوچا تھا۔ اس کی مخالفت کرنے والے ہر شخص کو ہراساں کیا گیا، بشمول این جی اوز، صحافی، مصنفین اور میڈیا۔ جبر نے سب کو ایک مشترکہ مقصد پر اکٹھا کر دیا۔ 1999 میں جب جرنیلوں نے مسٹر شریف کو اقتدار سے ہٹایا تو بیشتر سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے سکون کا سانس لیا۔ مارچ 2007 میں جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو برطرف کر دیا۔ چند دنوں میں سول سوسائٹی، صحافیوں اور وکلاء نے کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر قبضہ کر لیا۔ میں باقاعدہ حصہ لینے والوں میں سے ایک تھا۔ ججوں کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرے نہ کوئی کنٹینر تھا اور نہ آنسو گیس کی شیلنگ۔ یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی اور چند مہینوں میں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ بن گئی۔ اطلاعات کے مطابق جنرل کیانی نے تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ زرداری نے بعد میں اس احسان کو اتارنے کی ہر درجہ کوشش کی۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی حمایت حاصل ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، پی ٹی آئی 12 انتہائی تجربہ کار اور ہنر مندانہ چالاک سیاسی جماعتوں، متعصب میڈیا، مشتعل بیوروکریسی، متعصب ای سی پی اور ناراض اسٹیبلشمنٹ پر مشتمل مخلوط حکومت کے خلاف اکیلے ہی لڑ رہی ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی تحریک پاکستان کی تاریخ کی واحد غیر ہائبرڈ سیاسی تحریک دکھائی دیتی ہے۔ میری نظر میں یہ ایک نعمت ہے، اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے دوری برقرار رکھے تو یہ ماضی کی نسبت ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ پی ٹی آئی کو اپنی تنہائی کو ختم کرنا ہوگا، اور یہ کام نامیاتی سول سوسائٹی جیسے مزدور یونینوں اور دیگر انجمنوں تک پہنچ کر کیا جا سکتا ہے۔ فیکٹری ورکرز کی یونینوں، صفائی کرنے والوں، نرسوں، اساتذہ، ڈرائیوروں، ہاکروں، کسانوں، حجاموں، چھوٹے دکانداروں، اقلیتی گروپوں اور سوشل نیٹ ورکس کی انجمنوں کے اتحاد پر غور کریں۔ پارٹی کے طاقتور، دولت مند گروہوں کے اثر و رسوخ میں توازن پید ا کرنے کے لیے ان تمام طبقات کی حمایت بھی ضروری ہے۔کیونکہ طاقتور طبقہ کی دلچسپی پارٹی سے وفاداری کے بجائے گروہی مفادات کو فروغ دینے میں ہے۔ اس کے علاوہ، 1988 کے بعد سے،اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے پسماندہ گروہوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے بجائے، الگ الگ ونگز (جیسے لیبر، یوتھ اور ویمن ونگز) بنائے، جس نے درحقیقت سماجی تحریکوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ بگاڑ بھی دیا۔ اس نے نام نہاد مرکزی دھارے کی جماعتوں کی سماجی بنیاد کو ختم کر دیا، جس نے بالآخر نہ صرف اسٹیبلشمنٹ پر سیاسی رہنماؤں کا انحصار مزید بڑھا دیا بلکہ ملک میں جمہوری طرز حکمرانی کے اخلاقی تانے بانے کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آج ہمارے پاس دو پاکستان ہیں ۔ جن کے پاس کچھ نہیں (99 فیصد) اور جن کے پاس حد سے زیادہ ہے (1 فیصد)۔ پی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں کمزور طبقہ کی نمائندگی نہیں ہے۔ اپنے ایک حالیہ مضمون میں، میں نے دلیل دی کہ یونینڈینسٹی ( کتنے فیصد مزدور یا محنت کشوں کی یونینز پارٹی کا حصہ ہیں) ، جمہوریت اور حکمرانی کے معیار کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ تقریباً تمام نارڈک ممالک جمہوریت اور گورننس کے معیار کے اشاریوں میں سرفہرست ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ یونین ڈینسٹیی (61 فیصد سے 92 فیصد) ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 3 اور 38 غیر ہائبرڈ،سٹیزن سینٹرڈ اور شہریوں کی قیادت میں تحریک چلانے کے لیے کافی جگہ فراہم کرتا ہے،جو پاکستان میں اچھی حکمرانی کی واحد ضمانت ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہو گا جب پاکستان تحریک انصاف عوامی سطح کی سماجی تحریکوں کے ساتھ اتحاد کر ے۔بااثر اور غریب طبقہ کے درمیان توازن لانے کا یہ واحد راستہ ہے۔ سن زو کا مشورہ یاد رکھیں اور ہماری سیاسی تاریخ بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ’’ فوجی مدد سے بننے والی حکومتیں انتہائی کمزور ہوتی ہیں۔ اس لیے جمہوری آزادی کی آبیار ی کیلئے عوامی قوت کا بیج بوئیں۔ (ختم شد)