پاکستان مختلف نوع کی آفات کا شکار ملک ہے۔ سیلاب، زلزلے، تودے گرنا، بادل پھٹنا، خشک سالی اور طوفان۔ ابھی، مون سون کے موسم کے آغاز میں ہی ہمارے شہر زیر آب آ چکے ہیں۔ کراچی جہنم جیسی تباہی سے دوچار ہے۔ گزشتہ سال بھی کچھ مختلف نہیں تھا اور اْس سے پہلے کا سال بھی۔ بلوچستان کے وسیع علاقے بھی تباہی کا شکار ہیں۔ آفات کے باعث حکمرانوں کو شرمندگی کا سامناضرور کرنا پڑتا ہے، لیکن وہ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ موسمیاتی تبدیلی اور شدید بارشوںکی وجہ سے جلد ہی دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہو جائے گی، جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اور ان کے کناروں پر بسنے والے لوگوں کا روزگارخطرے میں پڑ جائیگا۔ سیلاب سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس بہت سے طریقہ کار موجود ہیں،لیکن ہمارے ہاں جس اہم چیز کی کمی ہے وہ سیاسی جماعتوں کی آفات اور آفات کے حوالے سے حساسیت اور سنجیدگی ہے۔ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے مسلسل تین سال تک ملک انتہائی درجہ کے سیلابوں (بشمول جولائی اگست 2010) سے بڑے پیمانے پر متاثر ہوا، پھر بھی 2013 کے انتخابی منشور میں کسی بھی بڑی پارٹی نے ٹھوس اقدامات کا ذکر تک کرنا گوارہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ 2005 کے تباہ کن زلزلے کے صرف 26 ماہ بعد، جس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا، کے باوجود 2018 کے کسی بھی جماعت کے انتخابی منشور میںآفات کی روک تھام کے بارے میں کوئی جامع وعدہ نہیں ملتا۔ آئیے ماضی میں تھوڑا اور پیچھے چلتے ہیں، ستمبر 1992 میں سیلاب نے کشمیر سمیت ہمارے ملک کا تقریباً پانچواں حصہ تباہ کر دیا تھا۔ اگلے سال عام انتخابات تھے ، لیکن آفات کی روک تھام کے حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں اس کا ذکر تک نہ تھا۔ 2002، 2008، 2013 اور 2018 کی بڑی جماعتوں کے انتخابی منشور بڑی حد تک پارٹیوں اور سال ہا سال سے تقریباً ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اکثریت نے اپنے اپنے منشور کی روشنی میں آفات کے حوالے سے پالیسیاں بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ منشور محض ایک رسم یا قانونی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے تیار کیے جا تے ہیں۔تاہم منشور کا اجراء پارٹیوں کو جوابدہ بنانے کے لیے ایک معیار تو فراہم کرتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ نہ تو فریقین اور نہ ہی تجزیہ کار اس حوالے سے کوئی سنجیدہ سٹڈی پیش کرتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ نہ تو سیاسی جماعتیں یا نہ سیاسی تجزیہ کار آج تک اس حوالے کوئی سنجیدہ تحقیق کر سکے مزیدبرآں، یہ جاننا بھی بہت ہم ہے کہ کچھ جماعتیں بہت ہی اہم معاملات کا اپنے منشوروںمیں ذکر کیوں نہیں کرتیں۔ تخفیف آفات ، ایک ایسی اہم مثال ہے۔ کیا یہ چکر ا دینے والا معاملہ نہیں کہ، سیاسی رہنما اور ارکان اسمبلی اکثر آفات کے بعد آفت زدہ لوگوں میں امدادی اشیاء کی تقسیم آئندہ مستقبل میں بر پا ہونے والی آفات کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ، لیکن اپنے منشور میں اس حوالے سے ایک پیراگراف شامل کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ مزید برآں، آفات نہ صرف غریبوں کو ان کے معمولی املاک اور ذریعہ معاش سے محروم کرتی ہیں بلکہ ہماری جی ڈی پی کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچاتی ہیں۔ لہذا، تخفیف آفات کو بڑی جماعتوں کے منشور کا ایک اہم ستون بننا چاہیے تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر ایسا نہیںہوا ہے۔ بہر حال ، یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ زیادہ تر جماعتوں کے منشور میں ماحولیات یا موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ تاہم، یہ عام آدمی کا اعتماد بڑھانے کیلئے ناکافی ثابت ہوا ہے۔ پانچ بڑی جماعتوں کے منشوروں کا تقابلی تجزیہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ و ہ پائیدار ترقی کے اہداف اور تخیف آفات کی حکمت عملی کے بارے میں لاعلم ہیں۔ صرف موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، ماحولیات، صاف ہوا، جنگلات وغیرہ کی اہمیت کو تسلیم کرنا کافی نہیں ہے۔ منشور میںانکے لئے ٹھوس اہداف کا واضح عہد کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ ووٹرز انہیں جوابدہ بنا سکیں۔ کچھ عرصہ قبل، میں نے کوالالمپور، ملائیشیا میںآفات کی روک تھام کے حوالے سے چار روزہ عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کی، جس کا اہتمام دی گلوبل نیٹ ورک آف سول سوسائٹی آرگنائزیشنز فار ڈیزاسٹر ریڈکشن نے کیا تھا۔ مجھے سیاسی جماعتوں کے منشور میںآفات کی روک تھام کی عدم موجودگی کے مسئلے کو 'ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے آفات کی روک تھام میں بنیادی تبدیلی ‘‘حاصل کرنے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ کے طور پیش کرنا پڑا۔ تخفیف آفات پر ’’ ایشیائی وزارتی کانفرنس2016(AMCDR)‘‘ کا اعلامیہ نئی دہلی، بھارت میں تیار کیا گیا۔ AMCDRR نے بھی اسے سنگین مسئلہ گردانتے ہوئے اس پر مسلسل کام کرنے کا عزم کیا۔ اس نے 'تباہی کے خطرے میں کمی کے قومی اور مقامی طرز حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لیے پالیسیوں، تمام شعبوں میں ادارہ جاتی انتظامات کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانے' کا بھی عہد کیا۔ چونکہ سیاسی جماعتیں اپنے وعدوں کو نظر انداز کر نے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی ، تو پھر ان سے تخفیف آفات جی سے اہم مسئلے کو شامل کرنے کے لیے کہنے کا کیا فائدہ؟ یہ ایک مناسب سوال لگتا ہے۔ لیکن ہم کسی ایسے مسئلے کے بارے میں اپنی خاموشی کا جواز پیش نہیں کر سکتے جو ہمیں بہت زیادہ اور بار بار نقصان و اذیت پہنچاتا ہے۔ میری رائے میں سول سوسائٹی اور تھنک ٹینکس کو ملک میںتخفیف آفات پر سیاسی عزم کو مضبوط بنانے کے لیے منظم مہم شروع کرنی چاہیے۔ شاید ہمیں پاکستان میں آفات کے ذمہ داروں کو سرم عام شرم دلانے کی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لکھنے والے اپنے مضامین میں اشرافیہ کے سیاسی اور معاشی قبضہ گیری پر انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں، لیکن اشرافیہ تباہ کن طرز عمل کو بدلنے کیلئے کوئی اجتماعی کوشش نہیں کررہے۔ میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ کسی اجتماعی کاوش کا آغاز کیا جائے ، جو عوامی مسائل کی آواز بن سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دانشور یہ طے کریں کہ وہ مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں یامفاد عامہ کی مخالف اشرافیہ کے۔ محض خوش کن مضامین لکھنے سے مضبو ط اشرافیہ کی گرفت ختم نہیں کی جاسکتی۔ ٭٭٭٭٭