1966 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے شہری اور سیاسی حقوق پر ایک بین الاقوامی کنونشن اپنایا، جو تقریباً ایک دہائی کے بعد کہیں جاکر مؤثر ہوا۔ اس کنونشن کا آرٹیکل 25 آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے رہنما اصولوں کا تعین کرتاہے جن کے مطابق ہر شہری کو اجتماعی امور میں ،براہ راست یا منتخب نمائندوں ،کے ذریعے حصہ لینے کا موقع دیا جائیگا اور یہ کہ اسے خفیہ رائے شماری کے ذریعے باقاعدگی سے منعقد ہونے والے انتخابات میں ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا جو اسکی اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت ہوگا۔باوجود اسکے کہ 168 ممالک نے اس کنونشن کی توثیق کی ،تقریباً ہر ریاست نے اپنے ملک کے اندر یا کہیں اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی کی۔ مغرب کی لبرل جمہوریتوں نے آمریتوں، بادشاہتوں اور حکومتوں کی حمایت جاری رکھی جو دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں بنی تھیں۔ ایسا آج بھی ہورہاہے۔ شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن نے انتخابات کے دو بنیادی اصولوں کی وضاحت میں مدد کی ہے - آزادی اور انصاف۔ ایک سرکردہ سیاسی ماہر، رابرٹ ڈاہل کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی شرط یہ ہے کہ وہ" زور وزبردستی سے پاک اور پولنگ تک منصفانہ لائحہ عمل کی عکاسی کریں ، اہل ووٹروں کی منصفانہ گنتی کو یقینی بنائیں اور انتخابی نتائج تمام جماعتوں کے لیے قابلِ قبول ہوں "۔ اگرچہ میں رابرٹ ڈاہل سے کافی حد تک متفق ہوں، لیکن ان کی آزاد و منصفانہ انتخابات کی تعریف کے آخری حصے کو قبول کرنے سے گریزاں ہوں کیونکہ کچھ ممالک، جیسا کہ امریکہ، پاکستان اور ہندوستان کے کئی انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی منصفانہ لیکن پھر بھی مدمقابل جماعتوں نے انکے نتائج کو قبول کیا تھا۔ سیاست دان توسیاست دان ہوتے ہیں کہ حالات کے پیشِ نظر فنکاروں کی طرح کام کر سکتے ہیں لیکن انتخابی مبصرین اس عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ وہ برے انتخابات کو صرف اس لیے جائز تسلیم نہیں کرسکتے کہ سیاست دانوں نے انہیں تسلیم کر لیا ہے۔ میری نظر میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کی تعریف کچھ یوں بنتی ہے: "آزادانتخابات میں تمام شہری بغیر کسی خوف، حمایت، دباؤ یا جبر کے اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ انتخابات میں انصاف کا پہلو تب آتا ہے جب مقابلہ کرنے والی تمام جماعتوںکو برابری کی بنیاد پر کھلا میدان ملتا ہے"۔ فی الحال ہم بحث کو انتخابات کی "آزادی" تک محدود رکھتے ہیں۔ اکثریتی انتخابی نظام کے تحت امیدوار صرف ایک ووٹ سے جیت یا ہار سکتا ہے۔ لیکن کیا ہم ایسے ووٹرز کی تعداد جانتے ہیں جن کی آزادی کو ہر الیکشن میں اس ایک جادوئی ووٹ کے حصول کے لیے دبایا جاتا ہے؟ مجرم کون ہیں اور وہ کون سے طریقے استعمال کرتے ہیں؟ یہ واردات اتنی صفائی سے ڈالی جاتی ہے کہ الیکشن حکام کو بھی بہت کم سراغ مل پاتا ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک میں یہ مرض عام ہے۔ شاید ہی کوئی انتخابات کی نگرانی کرنے والا گروپ ووٹروں کی آزادانہ مرضی کے خلاف دبائو کو جامع انداز میں جانچنے کی زحمت کرے۔تقریباً تمام مبصرین بنیادی طور پر پولنگ سٹیشنوں کے اندر ہونے والے معاملات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ فافن کے مختلف انتخابات کے مشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ پولنگ سٹیشنوں کے اندر بھی کچھ ووٹرز پر دباؤ ڈالا گیا۔ ایک منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتہائی منظم ماحول میں ووٹرز کو دبایا جا سکتا ہے تو پھر محلوں اور کام کی جگہوں پر رشوت یا جبر کے ذریعے اور بھی بہت سے لوگوں کو دبایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے ایک سابق چیف الیکشن کمشنر، ایس وائی قریشی نے ہندوستانی انتخابات میں پیسے کے [غلط استعمال] کے 40 ذرائع بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ "مقابلے کے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے مہم نہ چلانے اور ووٹ نہ دینے کے لیے نقد رقم ادا کرنا۔ اپنے انعام کا دعوی کرنے کے لیے ووٹروں کو یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ ان کی انگلی پر انمٹ سیاہی کا نشان نہیں ہے۔ یہ ایک چشم کشا معاملہ ہے۔ ایسے دوست جنہیں پاکستانی انتخابات میں دلچسپی ہے ۔میں انہیں ایس وائی قریشی کی انکی ہندوستانی انتخابات پر لکھی گئی کتاب پڑھنے کا ضرور مشورہ دونگا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے کسی بھی سابق اعلیٰ عہدیدار نے آج تک ہمارے داغدار انتخابات کا دیانت دارانہ تجزیہ کرنے کی جرأت نہیں کی۔ پتن، ایک ترقیاتی تنظیم ہے جس کے ساتھ میں وابستہ ہوں اس کے مشاہدے میں آیا کہ 2001 اور 2005 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوران ووٹ خریدنے اور زور و زبردستی کے طریقوں کا استعمال بہت زیادہ تھا۔ کچھ حلقوں کے میرے انتخابی مشاہدے کے دوروں کے دوران بھی اسی طرح کی بدعنوانیاں منظر عام پر آئیں۔ لاہور میں خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد نے بتایا کہ ان کے مرد بزرگوں نے ان کے شناختی کارڈ ضبط کر لیے تھے کیونکہ انہوں نے مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مزید برآں، پولنگ والے دن بہت سی خواتین نے بتایا کہ ان کے نام ان کی مرضی کے بغیر دوسرے حلقوں یا دوسرے شہروں میں منتقل کر دیے گئے تھے۔ ان کے دعوے کی تصدیق کے لیے، ہم نے الیکشن کمیشن کو 8300 پر ایک ایس ایم ایس بھیج کر ان کی رجسٹریشن کی پڑتال کی۔الزامات درست نوعیت کے تھے۔ ہر انتخاب میں تقریباً ہر حلقے میں بہت سے ووٹروں کی "آزاد مرضی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔کسی بھی انتخابی مشق کو جس میں رائے دہندگان کی آزادانہ مرضی کودبا دیا جاتا ہے، آزاد یا منصفانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ دبائو کی سطح کی نشاندہی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان طریقوں اور ذرائع کی چھان بین کی جائے جو آنے والے انتخابات میں مختلف امیدوار اور جماعتیں استعمال کریں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جبر راتوں رات نہیں ہوتا۔ اس کی جڑیں ہماری طاقت اور دولت کے ڈھانچے میں گہری پیوست ہیں۔ کثیر جہتی غربت اور انتہائی عدم مساوات نے بہت سے ووٹروں کی آزادی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔