کیا خطرات اور خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس کی یاد کافی ہے؟ قدرتی آفات کے ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تباہی تب ہوتی ہے جب کمزوری کسی خطرے کا سامان کرتی ہے۔ کچھ سائنس دان یہ بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ "تمام ممالیہ جانور بشمول انسان خوف کی کیفیت کا مقابلہ دماغ کاایک خاص حصہ کر تا ہے ، جسے امیگڈالا(Amygdala) کہتے ہیں۔ اگر کچھ انسان ایک طرح کے خوف کا با ر بار سامنا کرتے ہیں، تو انکے ذہنوں میں اس خوف کے گھر کر جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ محض ایک واقعہ ،خواہ وہ کتنا ہی تباہ کن ہی کیوں نہ ہو، متاثرہ لوگوں میں 'خوف کی کیفیت' پیدا کر یا برقرا ر کھ سکتا ہے؟ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ نہیں ،خاص طور پر جب خطرہ واضح نہ ہو ،یعنی پوشیدہ ہو ۔ لوگوں میں شعوری بیداری پیدا کرنا اور صلاحیتیں بڑھانا ایک ممکنہ جواب لگتا ہے، لیکن وہ بھی جزوی طور پر۔ کیونکہ لوگوں میں نقصان کا خوف پیدا کرنا اور قوانین کے سخت نفاذ کے ذریعے سزا دینا ضروری ہے۔ حفاظتی اقدامات کے حوالے سے پاکستانیوں کے مزاج اور رویے کو ذہن میں رکھئے ،جیسے فیس ماسک، ہیلمٹ، سیٹ بیلٹ اور سیسمک بلڈنگ کوڈز۔ بالاکوٹ میں تباہی کے فوراً بعد تعمیرات پر پابندی لگا دی گئی تھی کیونکہ یہ فالٹ لائن پر ہے۔جبکہ حکام نے دیکھاکہ اس کے برعکس تعمیرات کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی اور غیر ریڈزون والے علاقوں میں بھی متاثرین نے زلزلہ مزاحم ڈیزائن کے مطابق اپنے گھر بنانے کی زحمت نہیں کی۔ جب ہم نے لوگوں سے اس سے حوالے سے پوچھا تو کچھ نے جواب دیا کہ ’’ڈیزائن ہمارے پاس اس وقت پہنچا جب ہم تعمیر کا آغاز ہو چکا تھا‘‘دوسروں نے کہا 'نیا ڈیزائن قابل عمل نہیں تھا کیونکہ اس میں ہمیں لکڑی کے استعمال سے منع کیاگیا ، جو کہ اس علاقہ میں عمارت کا ایک ضروری مواد ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’حکام نے ہمیں تعمیر نو کے لیے سٹیل، سیمنٹ اور ریت استعمال کرنے پر مجبور کیا۔ اہلکار ہمیں معاوضے کے فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دے گا اگر ہم نے ان کا تجویز کردہ مواد استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے مقامی حقائق و حالات کو نظر انداز کیا۔ اسٹیل کی سلاخوں اور سیمنٹ/ریت کے تھیلوں کو پہاڑی چوٹیوں تک لے جانا بہت مہنگا اور انتہائی مشکل تھا کیونکہ وہاں کوئی مناسب سڑکیں نہیں تھیں۔ ہمارے پاس بہت سے دیہاتوں میںپانی نہیں جو جدید تعمیرات کے لیے ضروری تھا۔ ایک مباحثہ گروپ کے ایک شریک کہا کہ "زلزلہ آنا ً فاناً آیا اور سب کو تباہ رکرکے چلا گیا۔ پھر بھی ہم نے جو اں مردی سے اپنے آپ کو سنبھالا ، جب تک سرکاری حکام نے ہم سے کوئی بھی مشورہ کیے بغیر ہماری کوششوں میں مداخلت شروع کردی۔ اس نے ہمارے مزاحمتی عمل کو نقصان پہنچایا‘‘۔ پرانے بالاکوٹ میں تعمیر نو اور نیو بالاکوٹ سائٹ میں کی گئی تعمیرات، ہمارے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا پورا احوال بیا ن کرتی ہیں۔ جب میں نے جبی گاؤں کے رہائشی احمد سے نیو بالاکوٹ شہر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب کے بعد حکومت نے نیو بالاکوٹ سٹی کے لیے مختص فنڈز کا زیادہ تر حصہ ملتان اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرف موڑ دیا‘‘۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس جو انہوں نے لواحقین کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیئے تھے۔ جسٹس احسن نے کہا تھا کہ جو رقم متاثرین کے لیے تھی وہ میٹرو اور بی آئی ایس پی پر خرچ کی گئی۔ محترمہ حرا ، ہزارہ یونیورسٹی کی ایک اسکالر نے اپنی تکالیف کا ذکر کیا ،لیکن اس نے اس تباہی میں ایک مثبت پہلو بھی پایا ‘‘اگرچہ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی ، لیکن زلزلے نے ہمارے علاقے میں مردوں اور عورتوں کے موجودہ تفریق کو کم کیا۔ بعد ازاں جیسے جیسے حالا ت معمول پر آئے ، وہی پابندیاں پھر سے واپس آ گئیں۔ ہزارہ یونیورسٹی کے سکالرز نے متفقہ طور پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیا کیونکہ اس خطے کو مستقل بنیادوں پر متعدد آفات کا سامنا ہے۔ جب میں نے ان سے مانسہرہ میں ڈیزاسٹر میوزیم قائم کرنے کی ضرورت پر جواب طلب کیا تو سب نے اس پر اتفاق کیا۔ ضلع مانسہرہ میں کئی دہائیوں سے سیاحت روزی روٹی کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے۔ اس کی نشوونما کو سمجھنے کے لیے، ہم بالاکوٹ اور کاغان کے راستے ناران گئے۔ پورے راستے میں ہوٹلوں اور مساجد کی بڑی تعداد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یقینی طور پر ترقی، روزگار اور مذہبیت کی علامت ہے۔ لیکن، زیادہ تر عمارتوں کی تعمیر میں عمارتی قوانین کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایک ہوٹل میں ایک ویٹر محمد صفدر نے ہمیں یہ بتایا کہ"زلزلے کے وقت ان کی عمر صرف چھ سال تھی اور اس کے سکول کو مکمل نقصان پہنچا۔اس کے بعد وہ کبھی اسکول واپس نہیں گیا کیونکہ وہ کئی مہینوں تک بند رہا۔اس دوران میں چائلڈ لیبر بن گیا اور تب سے میں کام کر رہا ہوں۔شاید یہ واحد نوجوان نہیں ہے۔بہت سے صفدر مزدور بن چکے ہوں گے کیونکہ زیادہ تر سکولوں کو اتنی جلدی تعمیر نہیں کیا گیا۔جتنا جلدی انہیں ہونا چاہیے تھا۔ جوزف سٹالن نے ایک بار کہا تھا کہ"ایک آدمی کی موت ایک المیہ ہے اور لاکھوں کی موت اعدادوشمار ہے۔" حکومتوں کے لیے شاید اعداد و شمار ایک المیے سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ہماری جس سے بھی ملاقات ہوئی،اس کی کہانی حکومتی اعدادوشمار کے بر عکس تھی۔ ٭٭٭٭٭