ہزار ہا ‘ ہزار ہاکتنے ہی مناظر ہیں،کتنے ہی کردار اور کتنے ہی زمانے ۔ دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے ۔ یہ قصہ اب لکھ دیا جائے ! ؎ سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں امیر جماعت اسلامی کی حیثیت سے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے آخری انٹرویو میں شرکت کی سعادت ناچیز کو حاصل ہوئی ۔ سوالات مصطفی صادق مرحوم نے مرتب کیے تھے لیکن عبارت لکھنے کی توفیق خاکسار کوملی۔ سید صاحب تھک چکے تھے ۔ کہنا اس ریاضت کیش آدمی کا یہ تھا کہ اب وہ اپنا آرام بڑھا لینا چاہتے ہیں ۔ عمر بھر اتنی مشقت انہوں نے کی تھی کہ شاذ و نادر ہی کوئی کرتا ہے ۔ پوری طرح ایک پر عزم آدمی ،ایک مقصدِ حیات کے ساتھ جو جیا اور اسی کو سینے سے لگائے رخصت ہوا ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سبکدوش ہونے کا وقت آیاتو اس انٹرویو کا ایک جملہ انہیں سنایا ۔ ’’مستقبل کی ممکنہ مصروفیات پہ بات کرتے ہوئے اپنے خاص لہجے میں سید صاحب بولے ’’میں جماعتِ اسلامی کی امارت سے ریٹائر ہو رہا ہوں ، زندگی سے نہیں ۔ ‘‘مراد آپ کی یہ تھی کہ موتی بکھیرنے والا ان کا شائستہ قلم ان کے ہاتھ میں رہے گا ، غور و فکر سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔ سبکدوشی کے بعد ایک موقع پر جب جنرل سے کہا کہ کیا انہوں نے پتوار ڈال دیے ہیں تو سید مرحوم کا جملہ یاد دلا کر یہ کہا کہ ان کا وقت اب بھی با معنی مصروفیات میں گزرتا ہے۔ یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں ۔ Super Achievers۔پیشہ ء صحافت میں پچاس سال پورے ہونے پر اس حقیر پُرتقصیر نے بھی ارادہ کیا ہے کہ زائد مصروفیات سے اب ہاتھ اٹھا لیا جائے ۔ زندگی رہی تو انشاء اللہ قلم سے رشتہ برقرار رہے گا لیکن زیادہ سے زیادہ سال بھر میں ٹیلی ویژن کو خیر باد کہہ دینا چاہئیے ۔ کسی نے کہا تھا : فلسفہ وہ درخت ہے ، جس پر پھل نہیں لگتا۔ برقی صحافت بھی شاید ایسی ہی ایک چیز ہے ، بالکل ہی سطحی ۔ قلم کی بات دوسری ہے ۔ بے شک یہ دعویٰ درست ہے کہ اصل حکمرانی اسی کی ہے ۔ چین کے فلسفی نے کہا تھا، لکھنے والے کی مرضی ہے کہ وہ بادشاہ بنے یا بھکاری ۔ مڑ کے اب دیکھنا چاہئیے ۔ بیتی ہوئی نصف صدی کا جائزہ لینا چاہئیے ۔ ان سپنوں اور خوابوں سے شائد اب التفات کرناچاہئیے ، عمر بھر جو دیکھا کئے اور متشکل نہ ہو سکے ۔ ؎ حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے اللہ اگر توفیق دے تو خود نوشت لکھنی چاہئیے ۔ اپنے کارنامے نہیں کہ برپا ہی نہ ہوئے بلکہ مشاہدات ۔ مثال کے طور پر یہی کہ میرے اوّلین مدیرجناب مصطفی صادق پہ کیا بیتی ۔ غیر معمولی ذہانت کے باوجود برگ و بار کیوں نہ لا سکے ؟ آخر کو بے بس و لاچار کیوں ہو ئے ؟ بجھ کیسے گئے ؟استادِ گرامی جنابِ جمیل اطہر نے اپنی خودنوشت میں ’’دیارِ مجدّدسے داتا نگر تک ‘‘ میںنے اپنے اس مربی کا ذکرتفصیل کے ساتھ کیا ہے ۔ بہت تفصیل کے ساتھ لیکن صرف ذاتی حوالے سے ۔ سوال اس کتاب سے یہ پھوٹتا ہے کہ مجیب الرحمٰن شامی اور مصطفی صادق ایسے معرکتہ الآرااخبار نویس رائیگاں کیسے ہوتے ہیں ۔خس و خاشاک کیوں ہو گئے؟ معاشرے کا عمل دخل اس میں کتنا ہے اور شخصیت کے تضادات کا کس قدر ۔یہ حادثہ کس طرح رونما ہوتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہیرے پتھر اور بادشاہ دریوزہ گر ہو جاتے ہیں۔ ؎ کوئی مشتری ہو تو آواز دے میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں ایک آدھ نہیں ، پچاس سالہ صحافی تاریخ سے متعلق کتنے ہی سوالات ہیں ۔ مثلاً یہ کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کی زندگی میں وہ کون سا تضاد کارفرما تھا کہ کھیت کو سیراب نہ کر سکے۔ عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا : بنیادی غلطی ہمیشہ تجزیے کی ہوتی ہے ۔ سید صاحب جفاکش تو بہرحال، بے ریا بھی تھے ۔ انشاء پردا ز ایسے کہ بابائے اردو مولوی عبد الحق ایسا آدمی مسحور ہوا اور یہ کہا : ہماری زبان کو انہوں نے شائستگی عطا کی ۔ شائستگی سے بڑھ کر سیّد کا وصف بے خوفی تھا ۔ 1956ء کے قضیے میں کہ الیکشن میں حصہ لیا جائے یا نہ لیا جائے ۔ جماعتِ اسلامی سے الگ ہونے والوں میں میاں عامر محمود کے دادا میاں حفیظ بھی شامل تھے ۔ سیّد صاحب کے فیصلے پہ نہ خوش لیکن سرتاپا صداقت شعار ۔تینتالیس برس ہوتے ہیں ، ان سے سوال کیا : سیّد مودودی پر آئین کی پیروی کا خبط کیوں سوار ہوا؟کیا اس کے پیچھے کوئی خوف کارفرما تھا ؟ کیا مصر کی اخوان المسلمین کے تجربے سے وہ ڈر گئے تھے ؟ ہمیشہ کے متحمل لہجے میں بے ساختہ میاں صاحب مرحوم نے کہا:خوف تو اس کی کھال میں داخل نہ ہوسکتا تھا ۔ سیّد صاحب میں ایک اور وصف ایسا تھا، جو علمائے کرام میں ہوتا ہی نہیں ، النادر کالمعدوم۔ آمدن ان کی بہت تھی ، ذاتی ضروریات محدود لیکن حاجت مندوں پہ روپیہ خرچ کرتے تو دریا دلی کے ساتھ ۔ بیشتر کتابوں کی آمدن پارٹی کے لیے وقف کر دی تھی ۔ ضرورت مندوں کی ایک پوری فہرست تھی ، مہینے کے آغاز میں جنہیں روپیہ بھیج دیا جاتا۔بٹ صاحب کو تاکید تھی کہ خاندان یا پارٹی کے لیڈروں کو ہوا بھی نہ لگے۔ اس عالم میں سیّد صاحب دنیا سے اٹھے ۔ لاہور سے بہت دور ، ریاست ہائے متحدہ کے ایک قصبے میں اس حال میں دنیا سے اٹھے کہ بے ہوشی طاری تھی۔ نماز پڑھ چکے تھے ۔ با ایں ہمہ جب بھی ہوش میں آتے تو بڑبڑاتے ’’ بیوی وضو کرادو ، بیوی نماز پڑھوادو ۔ کیا یہ احساس ان پر سوار تھا کہ نماز کا حق ادا نہیں ہوا۔ کیا اس وقت ان پر اسد اللہ غالبؔ کی سی کیفیت طاری تھی؟ جان دی ہوئی ، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اخبارنے ان کی وفات پر سرخی جمائی ’’مشرق کا آفتاب مغرب میں غروب ہو گیا‘‘ان کی صاحبزادی نے لکھا ’’نور ‘ نور میں اور مٹی ‘مٹی میں جا ملی۔ چاہنے والے سید صاحب کے بہت تھے۔ سیّد صاحب پہلا پڑائو تھے ۔ بیچ میں فکری آوارگی کے کئی سال ۔ پھرپروفیسر احمد رفیق اختر ۔ ربع صدی تک اس کاجادو قائم رہا ۔ اب بھی قائم ہے ۔ جس آدمی کی مٹی اخلاص سے گندھی ہو ۔ اللہ اور اس کی مخلوق سے جو محبت کرتا ہو ۔ حیرت انگیز پزیرائی کے باوجود خبطِ عظمت سے مکمل طور پر جو بچا رہے ۔ حصولِ علم جس کی اوّلین ترجیح ہو۔ ہمہ وقت جو استاد تنقید کا خیر مقدم کرے ۔ اس کے شاگرداور ہم نفس کو رہائی نصیب نہیں ہوتی ۔ با ایں ہمہ وہ آدمی ہیں ۔فرشتہ نہیں۔ غلطیاں ان سے بھی سرزد ہوئیں ، تجزیے کی غلطیاں ۔ لطیفہ یہ ہے کہ سب سے بڑی غلطی کے ارتکاب میں اس ناچیز کا دخل تھا ۔ برسوں میں ہی انہیں قائل کرتا رہا کہ ڈاکوئوں او رلٹیروں سے نجات کے لیے کپتان کی مدد کرنی چاہئیے ۔ وہ تامل کا شکار تھے ۔ مہم جو کی سوجھ بوجھ پر انہیں اعتماد نہ تھا۔ ایک دن بہت سنجیدگی کے ساتھ سوال کیا: کیا وہ اتنا ہی بہادر ہے ، جتنا کہ دکھائی دیتاہے ؟اپنے دلائل میں نے پیش کر دیے ۔ بعد میں ثابت ہوا کہ بے شک وہ دلیر آدمی ہے مگر اتنا بھی نہیں اقتدارکے لئے خودداری طاق میں رکھ دی۔ ٹھیک ٹھیک عمران خان کو اگر کوئی پہچان سکا وہ جنرل اشفاق پریز کیانی ہیں ۔ وہ اس کی نفرت میں مبتلا ہوئے اور نہ محبت میں ۔ انہوں نے اسے مسترد کیا نہ قبول ۔ بس لا تعلق ہو گئے ۔ اس کے باوجود کہ برسوں ان کے بارے میں ۔ بے تکی باتیں وہ کرتا رہا۔ عالی ظرف جنرل نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اپنے فرائض میں مگن رہے ۔ ہزار ہا ‘ ہزار ہاکتنے ہی مناظر ہیں ،کتنے ہی کردار اور کتنے ہی زمانے ۔ دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے ۔ یہ قصہ اب لکھ دیا جائے ! ؎ سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں