ناقص حکمرانی اور اشرافیہ کی اجارہ داری نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کو بڑھاوا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعتوں کے پاس سیلابی آفت کے نقصانات کے تدارک کیلیے وقت نہیں، کیونکہ ان کی ترجیح اپنے اپنے اقتدار کی جنگ ہے۔حکمران طبقات اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے بے اعتنائی کا یہ رویہ عارضی نہیں، اس رویئے کا مظاہرہ پالیسی کی تشکیل اور مفاد عامہ کے منصوبوں کو نظر انداز کئے جانے میں بھی ہوتا ہے۔ عام آدمی ریاست سے مایوس ہو رہا ہے، حکومتین ریاست کا چہرہ ہوتی ہیں ۔ریاست کا چہرہ حیران کن طور پر عوام کی بجائے خواص کے بنائے نقوش سے ابھرا ہے۔جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین نے حکومتی امداد سے پیشتر ہی اپنے گھروں کو واپسی اور مکانات کی تعمیر نو شروع کردی ہے۔ اس وقت انکے لئے آنی والی سردی، گندم کی فصل بونے کے لیے رقوم کی کمی، خاندانوں کی کفالت اور زمینداروں کو زمین ککا ٹھیکہ ادا کرنے جیسے بڑے مسائل در پیش ہیں۔ حکومت ابھی تک بیرونی ممالک سے آنے والے امدادی سامان کی وصولی اور اس کو اپنے متعین کردہ علاقوں میں تقسیم کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے ۔کئی علاقوں میں سیاستدان اور وڈیرے امدادی سامان کو اپنے ڈیروں پر لاکر تقسیم کر رہے ہیں تاکہ ان کی سیاست اور خدمت خلق کا پردہ فاش نہ ہو۔ پتن ٹیم سیلاب متاثرین کی ضروریات کا جائزہ لینے اور امدادی سرگرمیوں کے لئے جب سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچی تو لوگوں کی شکایات کا ڈھیر لگ گیا ۔ زیادہ تر سیلاب زدگان نے حکومتی ناقص کارکردگی اور بے حسی کا گلہ کیا۔ ان کے نزدیک اراکین اسمبلی صرف اپنے پسندیدہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ماضی کی طرح متاثرین کی ایک بڑی اکثریت اپنی تباہی کا ذمہ دار جاگیردار ،سیاستدانوں کو ٹھہراتی ہے کیونکہ ان کے خیال میں سیلاب کے پانی کا رخ جاگیرداروں کی زمینوں کو بچانے کے لئے شہر کے ان حصوں کی طرف موڑ دیا گیا جہاں غریب لوگوں نے آبادیاں بسا رکھی تھیں ۔ ان تمام مسائل کا انکشاف لوگوں نے پتن ٹیم کے روجھان، ضلع راجن پور اور تونسہ شریف ،ضلع ڈیرہ غازی خان کے متاثرہ علاقوں میں سروے کے دوران کیا۔ مقامی کارکنوں اور باخبر لوگوں کی طرف سے تونسہ میں بااثر سیاستدانوں کی ملکیت میں چلنے والی کرشنگ کمپنیوں پر رودکوہیوں (Hill Torrents) کے فطری بہاو میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام لگایا گیا ، پانی کے بہاو کے یہ قدرتی راستے روایتی پہاڑی راستوں سے بارشی پانی کو آگے لے جاتے ہیں۔بااثر افراد نے پانی کی گرزگاہوں پر قبضہ کر رکھا ہے یا ان کے کچھ حصوں پر تعمیرات کر لی ہیں۔پانی کو جب اپنا راستہ نہیں ملا تو وہ کھیتوں اور آبادیوں کو ڈبونے نکل پڑا۔ مزید برآں، ہر سیلاب زدہ کمیونٹی نے کہا کہ حکومت کی طرف سے سیلاب کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر علاقہ خالی کرنے کی ابتدائی وارننگ بھی ناکافی تھی۔ بظاہر مقامی سطح کی ترقی کسی مناسب منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی ہے، جس نے بالآخر پانی کے بہاومیں رکاوٹیں پید ا کردی ہیں ۔بنا ٹاون پلاننگ خود رو قسم کی تعمیرات تباہی کی بنیادی وجہ معلوم ہوتی ہیں۔ کھڑے اور آلودہ پانی نے پینے کے پانی کے دستیاب ذرائع کو نقصان پہنچایا ہے ۔پینے کا صاف پانی کم دستیاب ہے ۔گدلا اور آلودہ پانی پینے سے بیماریاں اور اموات پھیلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چونکہ تعمیر نو اور بحالی کسی منظم طریقے سے نہیں ہو رہی ہے، اس لیے یہ خدشہ موجود ہے کہ لوگ آنے والے وقت کیلئے مزید خطرات کی پرورش اپنے ہاتھوں کر رہے ہیں۔حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے ان لوگوں کی رہنمائی کے لئے کہیں نظر نہیں آرہے۔ اس کے علاوہ، سیلاب زدگان کی بڑی اکثریت وفاقی یا صوبائی حکومت کے سیلاب متاثرین کیلیے اعلان کردہ معاوضے کے پیکجز کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتی ۔ یوں اپنے حقوق سے لا علمی اور شفافیت کی کمی بدعنوانی یا شکوک کی گنجائش پیدا کر سکتی ہے۔ پتن نے امدادی تقسیم کے چند مقامات کا بھی مشاہدہ کیا جہاں ہر جگہ مکمل افراتفری تھی۔ اس کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد کو یہ شکایت ہے کہ ان کے علاقے میں کوئی سروے کرنے نہیں آیا۔ جن کاشتکاروں نے جاگیرداروں کی زمینیں سالانہ ادائیگیوں کی بنیاد پر لیز پر لی تھیں ان کی کپاس اور دیگر فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، وہ زمینداروں کی طرف سے معاوضے کے مطالبے پر ابھی سے پریشان ہیں کہ وہ لیز کی ادائیگی کیسے کریں گے ؟ انہوں نے پتن سے مطالبہ کیا کہ وہ میڈیا کے ذریعے انکے اس مسئلہ کو اٹھائے۔ سیلاب زدہ علاقوں کیلئے درج ذیل پالیسی سفارشات تجویز کی جا تی ہیں : .1اس مرحلے پر ڈیجیٹل ذرائع سے ضرورت مند خاندانوں کو نقد امداد کی منتقلی ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف مقامی کاروبار کو تقویت ملے گی بلکہ قرضہ خواہی میں بھی کمی آئے گی اور خرد برد کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ یہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کا سب سے زیادہ مؤثر اور تیز ترین ذریعہ بھی ہے۔ .2تین Bs کی دیکھ بھال (Build-back-Better) اور کمیونٹی کی شرکت تعمیر نو اور بحالی کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ . 3بڑے جاگیرداروں کو اپنے ہاریوں/کسانوں کے قرض معاف کرنا چاہیں۔ .4عوامی لاچاریوں اور سٹرکچرل کمزوریوں کو دور کرنے پر کام کیا جائے۔ . 5سیلاب سے بچاو کی تیاری اور ابتدائی سطح پر خبردار کرنے کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ .6ہر اس رکاوٹ کو ہٹا یا جائے ، جو پانی کے بہاو/سیلاب کے پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔