ایسا لگتا ہے کہ این جی اوز کا پاکستان میں کبھی کوئی وجود ہی نہیںرہا۔ این جی اوز سے تعلق رکھنے والے چند افراد ہی دن بدن گہر ی ہوتی سیاسی تفریق پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ درحقیقت، ان کی خاموشی دلچسپی سے خالی نہیں۔ ایک انتہائی تفریق زدہ ماحول میں، آزاد آوازیں وقت کی ضرورت ہیں۔ تو، این جی اوز کو پوزیشن لینے سے کونسا امر مانع ہے ؟ فنڈنگ کی کمی، ہمت کی کمی، یا فکری سوجھ بوجھ کی کمی یا یہ ان سب کی۔ میری نظر میں یہ محض موقع پرستی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میںیہی شہری اپنے کام کرنے کے مواقع مسدود ہونے پر ماتم کر رہے تھے۔ جب ان مواقع کو پیدا کرنے کاوقت ملا تو انہوں نے چپ سادھ لی۔ آج کی خاموشی کو سمجھنے کے لیے این جی اوز کی 1990 کی دہائی سے ریاستی تسلط کے خلاف مزاحمت کا ایک مختصر جائزہ ضروری ہے۔ موجودہ سیاسی بحران سے پہلے ملک میں این جی اوز کے لیے کام کرنے کے مواقع مسدود ہونے کے بارے میں ایک بزدلانہ غصے پر مبنی بحث چھڑ چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ’’ ای میل سماجی کارکن ‘‘ بظاہر سول سوسائٹی کے بڑے حصے اور سیاسی حلقوں یا پڑھے لکھے طبقہ کو بحث و مباحثہ کا حصہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے باوجود، انہوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس پر فوری طور پر بحث اور حل کی ضرورت ہے کیونکہ ا س میں تاخیر سے ملک میں سماجی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کا محرک حکومت پنجاب کے ایک ایکٹ سے نکلا ہے، جس نے تمام این جی اوز کو حکم دیا کہ اگر وہ صوبے میں پہلے سے ہی رجسٹرڈ ہیں تو وہ چیریٹیز کمیشن میں دوبارہ رجسٹر ہوں جو پنجاب چیریٹیز ایکٹ 2018 کے تحت 15 اگست تک تشکیل دیا گیا ہے۔ ایک درجن سے زائد این جی اوز نے لاہور ہائی کورٹ میں حکم کے خلاف اپیل کی تھی۔ 27 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ایک حکم جاری کیا جس میں انہوں نے پنجاب حکومت کو این جی اوز کے خلاف پنجاب چیریٹیز ایکٹ 2018 کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کے حوالے سے ’جبری اقدامات‘ کرنے سے روک دیا۔ ملک میں 1990 کی دہائی کے اوائل سے لے کر اب تک آنے والی تمام حکومتوں نے کسی نہ کسی طریقے سے یہ کوشش کی ہے لیکن سب ناکام رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت (1993 - 96) کو اس سلسلے میں ایک سرخیل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس وقت کے سماجی بہبود کے وزیر مرحوم ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے ایک بل پیش کیا، جس کی وجہ سے پہلے سے رجسٹرڈ این جی اوز کی دوبارہ رجسٹریشن ہو سکتی تھی۔ اس نے بھی کافی برانگیخت کیا تھا۔ این جی اوز نے ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور نتیجتاً ڈاکٹر نیازی نے این جی اوز کے نمائندوں کے ساتھ ایک دو ملاقاتیں کیں۔ این جی اوز کے وفد کے ایک حصے کے طور پر، مجھے یاد ہے کہ ہم نے واضح طور پر جھکنے سے انکار کر دیا تھااور بالاخر مجوزہ بل ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن این جی اوز کے مخالف ایک بار پھر اس وقت سرگرم ہو گئے جب 1997 میں نواز شریف نے حکومت بنائی۔ ان کی حکومت نے اْسی بل کو شیلف سے نکالا، دھول ہٹائی ، چند ترامیم کیں اور اسے دوبارہ متعارف کرایا۔ اگرچہ، ان کے وزراء نے پریس کے ذریعے این جی اوز کے خلاف غلیظ مہم چلائی اور پی ٹی وی اور ایجنسیوں کوکھلم کھلا این جی اوز کو ہراساں کرنے کی ترغیب دی، لیکن پی ایم ایل این حکومت کے زیر اہتمام بل کو بھی اْسی انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل مشرف کی فوجی حکومت) 2008- 1999) نے ذرا ہوشیاری سے کام لیا اور ان این جی اوز کو مالی مراعات کی پیشکش کی جو ایف بی آر یا پاکستان سینٹر فار فلانتھراپی سرٹیفیکیشن حاصل کریں گی، لیکن دیگر کو پریشان نہیں کیا۔ 2013 میں تیسری بار حکومت بنانے کے بعد، نواز شریف نے غیر منافع بخش شعبے میں کام کرنے والی بڑی ساختی تبدیلیاں متعارف کرائیں۔ نظم و نسق سے این جی اوز کے کنٹرول تک ایک مثالی تبدیلی واقع ہوئی۔ مثال کے طور پر آئی این جی اوز اور این جی اوز کی رجسٹریشن، ڈی رجسٹریشن اور کام کرنے میں سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں اور وزارت داخلہ کے کردار کو غیر معمولی حد تک بڑھایا گیا۔ دو درجن سے زائد INGOs کو ملک بد رکر دیا گیا۔ ہر منصوبے کے لیے این جی اوز کو ضلعی انتظامیہ سے پیشگی اور علیحدہ این او سی کا پابند بنا دیا گیا۔ اس سے ڈیویلپمنٹ سیکٹر کے کام میں بہت رکاوٹ پیش آئی۔ عمران خان کی حکومت نے نہ صرف نواز شریف کی پالیسی کو برقرار رکھا بلکہ وہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جو 90 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت (این جی اوز کی دوبارہ رجسٹریشن) کرنا چاہتی تھی۔ لہذا، ہم اعتماد کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ 1990 کی دہائی کے اوائل سے لے کر اب تک آنے والی تقریباً ہر حکومت نے این جی او سیکٹر کا گلا گھونٹنے کی پوری کوشش کی ہے۔ لیکن اس ٹیڑھے منصوبے میں پاکستان اکیلا نہیں ہے۔ 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کی صرف پانچ فیصد آبادی آزاد جمہوری فضا میں رہتی ہے جبکہ اٹھائیس فیصد مکمل طور پر پابندیوں کے زیر اثر ہے۔ باقی دو تہائی دنیا کی آبادی ' محدود آزای ' (چودہ فیصد)، ' پابندیوں ' (سینتیس فیصد)، اور ' دباو کے تحت ' (سترہ فیصد) فضا میں پائی گئیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو ' پابندیوں ' پر مبنی ماحول کی فضا پر حامل درجہ بند کیا گیا۔ 2019 تک، دونوں ممالک 'دباو زدہ ماحول ' کے زمرے میں آ چکے تھے۔ قارئین کو آگاہ کرنے کے لیے دونوں اصطلاحات کی مختصر تفصیل یہاں ضروری ہے۔ مندرجہ بالا رپورٹ کے مصنف CIVICUS کے مطابق، 'رکاوٹ' کی تعریف اس طرح کی گئی ہے - 'شہری پرامن طریقے سے منظم اور جمع ہو سکتے ہیں لیکن وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کا خطرہ رکھتے ہیں جن میں غیر قانونی نگرانی اور افسر شاہی کی ہراسانی وغیرہ شامل ہیں۔' جبکہ، 'دباو پر مبنی ' زمرے کے تحت، CSOs کو 'حکام کی طرف سے رجسٹریشن ختم کرنے اور بند کرنے کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔' مزید برآں، یہ'قید، زخموں اور موت' کا باعث بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، وفاقی/صوبائی دارالحکومتوں اور بڑے شہروں میں پابندیاں اور نگرانی نسبتاً کم دکھائی دیتی ہے جبکہ اندرون ملک این جی اوز کو زیادہ تر گھٹن کے ماحول کا سامنا ہے۔ (جاری ہے)