ایک خبر کے مطابق 5 دسمبر کو لاہور کے حلقہ این اے 133 میں ہونے والی پولنگ کے دوران ایک رکشہ ڈرائیور رمضان نامی نے جو وزیراعظم عمران خان کا حامی ہے، مسلم لیگ ن کے ووٹرز کو اپنے رکشے میں پولنگ بوتھ تک لے جانے سے معذرت کرلی۔ یوں اس نے اپنی پارٹی کی خاطر اپنی آمدن قربان کردی۔ دوسری طرف، قوم نے اسی حلقے میں غریبوں کے ووٹ خریدنے کے لیے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے حامیوں کو نقدی تقسیم کرنے کے مایوس کن عمل سے گذرتے دیکھا۔ این اے 133 کے ضمنی انتخاب سے چند روز قبل سیالکوٹ میں بھی اسی طرح کے رویے کا مظاہرہ دیکھنے میں آیاجب فیکٹری کے سینکڑوں کارکن سری لنکن شہری پر وحشیانہ تشدد کر رہے تھے، اس کا 48 سالہ منیجرملک عدنان اپنی جان داؤ پر لگا کر غیر ملکی مہمان کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ فیکٹری مینیجر ملک عدنان اور رکشہ ڈرائیور اپنے اپنے رویے میں امید کی علامت بن کر ابھرتے ہیں۔ کسی اختلافات کی وجہ سے کسی کو مار دینا اور ووٹروں کی آزاد مرضی کو خریدنا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ تنوع کا قتل فطرت کی موت کے مترادف ہے۔جب اشرافیہ کا طبقہ اقتدار کے لیے اپنا ضمیر بیچتا ہے تو غریبوں پر ووٹ بیچنے کا الزام کیوں؟ اسی کی دہائی میں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ اتحاد نہ تو جمہوری تھا اور نہ ہی اسلامی۔ لیکن ہماری سیاسی قیادت نے شرمناک طور پر دونوںنظریات کو محض اقتدار کی خاطر استعمال کیا۔ پوری قوم نے سیاسی رہنماؤں کی ہول سیل دیکھی جن کی فہرست لمبی ہے۔ سپریم کورٹ کیس 19/1996 پڑھیں صاف پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سیاستدانوں میں 150 ملین روپے تقسیم کئے گئے۔ یہ رقم مہران بینک سے آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ اسد درانی کے ذریعے نکالی گئی۔ ایسا نوے کی دہائی میں پی پی پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے کیا گیا لیکن یہی پارٹی انتقام کے جذبے سے سر شار اْنہیں خرافات میں پڑ گئی ہے جس میں کبھی اسکے حریف ملوث تھے۔ حلقہ بندیوں کی سطح پر ووٹ خریدنے کے نتائج اور بھی تباہ کن ہوں گے۔ ہمیں اس تباہ کن راستے کی طرف کیسے لے جایا گیا یہ اب کوئی راز نہیں رہا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار کے ذریعے انتہا پسند علماء کی حوصلہ افزائی کی۔ 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے مذہب کا کارڈ استعمال کیااور سرد جنگ کے دور میں فوجی آمر ضیاء الحق نے مغربی سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے خلاف جہاد کے نام پر کارروائیاں کیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کے بھوکے سیاست دان اب غریب ووٹروں کو جمہوریت سے بدظن کرنے پر آمادہ ہیں۔ پہلے، انہوں نے دولت جمع کی اور، اب، وہ اپنے قلعوں کی دیواریں مزید اونچی کرنے میں لگ گئے ہیں۔ ان کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے، ہماری تنظیم ان حلقوں میں مباحثے منعقد کر رہی ہے جہاں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد ووٹر کو دھمکانے اور ووٹ خریدنے کے پیمانے کا اندازہ لگانا ہے۔ پوری مشق دلچسپ نتائج سامنے لائی ہے۔ لاہور کی بہار کالونی میں ایک 70 سالہ دکاندار نے بتایا کہ اس نے الیکشن کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر ووٹ کی خریداری کبھی نہیں دیکھی۔ یہ دکاندار اکیلا نہیں ہے جس نے ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ جس سے بات کی ، اس نے اتفاق کیا۔ اپنی تحقیق کی بنیاد پر ہم نے حلقہ این اے 133 میں پولنگ سے ایک دن پہلے پیش گوئی کی تھی کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو عام انتخابات 2018 کے دوران حاصل کیے گئے ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ این اے 133 میں سروے مکمل کرنے کے بعد ہماری ٹیمیں اب خانیوال میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ 206 میں سروے کیاجہاں سولہ دسمبر کو ضمنی انتخاب ہوئے۔مقامی صحافیوں سے بات ہوئی تو انہوں نے تصدیق کی وہاں بھی یہی حربہ استعمال ہوا ہے۔ اس حوالے سے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ملک کے دوسرے شہروں کی طرح شہر میں زیادہ تر مسیحی آبادی نسبتاً غریب ہے۔چونکہ کرسمس قریب تھا، وہ ووٹ کے خریداروں کا آسان شکار تھے کیونکہ انہیں تہوار منانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف، حکمران جماعت کے لیے، ریاستی عہدیداروں کو استعمال کرنا اور ووٹرز کو جیتنے کے لیے سماجی تحفظ کی اسکیموں کا اعلان کرنا کارگر حربے تھے۔ مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما بھی مبینہ طور پر ووٹ خریدنے میں ملوث تھے۔ ووٹ خریدنے کے مضمرات تصور سے باہر ہیں کیونکہ یہ قانون کی حکمرانی اور احتساب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ووٹ کو بکائومال بنا لیناگھناؤنا جرم ہے۔ جہاں سیاستدان شفافیت اور انصاف کو داو پر لگاکر ووٹ خریدتے ہیں، وہیں غریب لوگ اپنی فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے ووٹ بیچ دیتے ہیں۔ نقصان یہ ہوتا ہے کہ ووٹ خریدنے کے بعد منتخب نمائندے ووٹرز کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں اپنے منشور کی تشہیر کرکے عوام تک پہنچتی تھیں۔ عوامی ریلیاں، مارچ، کارنر میٹنگز اور گھر گھر جا کر ووٹ مانگنے جیسے طریقے انتخابی مہم کا حصہ تھے لیکن پچھلے چند برسوں سیگروہ بندی، فرقہ واریت، ووٹروں کو دھمکانا، مذہب کا غلط استعمال اور ووٹ خریدنا معمول بن گیا ہے۔ ایک اور ہتھکنڈا جو خاص طور پر ضمنی انتخابات میں استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وفادار ووٹرز کو دوسرے حلقوں سے منتقل کیا جاتا ہے تاکہ امیدوار کی فتح کو یقینی بنایا جا سکے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ چیز جو غیر اخلاقی اور غیر جمہوری سمجھی جاتی ہے وہ ہماری انتخابی سیاست کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ملک افراتفری کی طرف بڑھ رہا ہے اور ریاستی اہلکار طاقتور شدت پسند گروہوں کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔