برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لیے مری آنے والے بہت سے سیاحوں میں سے 23 کا المناک انجام ہوا۔ کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے — موجودہ یا ماضی کی حکومتیں، ،سیاح، 'بے مثال' موسم، یا سب؟ ایک طویل عرصے سے پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ آفات کے شکار ممالک میں سے ایک رہا ہے۔ ہم نے تباہی کی روک تھام اور ردعمل پر اربوں خرچ کیے ہیں۔ ہمیں معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ دو بڑی آفات کو ذہن میں لائیں— 2005 کا زلزلہ اور 2010 کا سپر فلڈ۔ ان آفات کے بعد، 2005 اور 2015 کے درمیان، پاکستان نے قدرتی آفات کے خطرے میں کمی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون سازی، پالیسی فریم ورک، معیاری آپریٹنگ طریقہ کار اور منصوبے بنائے۔ آفات کے اعلیٰ معیار کے تعلیمی تجزیے کیے گئے اور تباہی کے خطرے سے دوچار علاقوں اور آبادیوں کی نقشہ سازی کے لیے تیاریاں کی گئیں۔ جدید ترین سافٹ اور ہارڈویئر سسٹم قائم کیے گئے، جنہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اہلکار چلاتے ہیں۔بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے اور ماہرین تکنیکی اور مالی مدد فراہم کرنے میں بھی شامل رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی ویب سائٹس دیکھیں۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ آپ کو تباہی کے خطرے میں کمی اور انتظامی قانون سازی میں زیادہ سقم نہیں ملیں گے۔ ان کی پالیسیاں، منصوبے، ڈھانچے، ایس او پیز اور سالانہ رپورٹس سب لاجواب ہیں۔مثال کے طور پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشنز کا قیام واقعی ایک بڑی پیش رفت تھی۔ ایکٹ کے مطابق، آفات سے نمٹنے میں انکا کردار کلیدی ہے۔ قومی اور صوبائی سطح پر ان کمشنز کی سربراہی بالترتیب وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کر رہے ہیں۔ جبکہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف، سینیٹ کے چیئرمین اور صوبائی اسمبلیوں کے قائد حزب اختلاف اپنے اپنے کمیشن کے ممبر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قانون میں مسلح افواج، مختلف وزارتوں اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے کمیشنز کی میٹنگز کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ پتن ترقیاتی تنظیم، جس سے میں وابستہ ہوں، اس نے پچھلے سال جون میں ریکارڈ تک رسائی کی درخواست کی لیکن تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ اسمبلیوں میں اپوزیشن لیڈروں نے کبھی بھی ڈی ایم سیز کو فعال بنانے کا پرزور مطالبہ نہیں کیا؟ جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی تو اس نے ڈی ایم سیز کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو آج پی ٹی آئی کر رہی ہے۔ تاہم سانحہ مری کے بعد شہباز شریف، مریم نواز اور بلاول بھٹو نے عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ ماضی میں انہی لیڈروں نے ایسے مواقع پر قوم کو ناکام کیا اور اس وقت کی اپوزیشن نے ان سے بھی یہی مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت حکومت میں موجود لوگ اسی طرح کی ناکامی پر مستعفی ہونے کے مطالبات کو مسترد کر رہے ہیں۔ ذرا یاد کریں، پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں گرمی کی لہر سے ایک ہزار جانیں بچانے میں کیسے ناکام رہی۔ اور مسلم لیگ (ن) کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب کی حکومت ، جسے بہت سے لوگ پنجاب کا سب سے قابل اور سب سے موثر ایڈمنسٹریٹر سمجھتے ہیں ، نے پنجاب میں 2010 کے سیلاب کے دوران عوام کو کیسے مایوس کیا۔ انہوں نے کمیشن آف انکوائری رپورٹ کو پبلک نہیں کیا کیونکہ اس سے ان کی انتظامیہ کی آفات سے نمٹنے میں ناقص کارکردگی بے نقاب ہو جائے گی۔ یوں، ہر حکمران جماعت نے ایسے حالات میں بار بار قوم کو ناکام کیا۔ وہ نہایت ڈھٹائی سے ایک دوسرے کی ناکامی پر سیاست کرتی ہیں لیکن طرزِ حکمرانی کو بہتر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابتدائی انتباہ اور اس کی مناسب تشہیر کا تباہی کے خلاف ردعمل کے ساتھ بہت مضبوط تعلق ہوتا ہے۔ 5 جنوری کو محکمہ موسمیات نے ہائی الرٹ اور قبل از وقت وارننگ جاری کی تھی۔ میڈیا کو پیغام پھیلانا چاہیے تھا، لیکن زیادہ تر ٹی وی چینلز نے انتباہ کو نظر انداز کیا۔مری کے تمام داخلی راستوں پر ٹول پلازوں کا کنٹرول ہونے کے باوجود مقامی انتظامیہ سیاحوں کے سیلاب کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی۔ مری کے اسسٹنٹ کمشنر نے روڈ ایڈوائزری جاری کرنے کے باوجود انٹری پوائنٹس کو بلاک کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے کچھ وزراء کوسیاحوں کے رش کو معاشی بحالی اور خوشحالی کی علامت قرار دیتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ سچ ہو سکتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ شہریوں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کردیں اور اپنی قانونی ذمہ داریوں کو پورا نہ کریں۔ اس کے علاوہ حکومتیں راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت بیشتر اضلاع میں ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں، جو کہ 2010 کے ایکٹ کے سیکشن 18 کے تحت لازمی ہے۔ طاقتور منتخب مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ناقص رہے گی۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا درست معلوم ہوتا ہے کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ایک اعلیٰ ترین ڈھانچہ/میکنزم ، جسے اکیلے ٹیکنو کریٹس اور بیوروکریٹس چلاتے ہیں اور اوپر سے نیچے تک منتخب اداروں (نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیشنز اور منتخب لوکل کونسلز) کے زیر انتظام نہیں ہیں ، کے قائم و دائم رہنے کا زیادہ امکان ہے اور سانحات کے دوہرائے جانے کا بھی۔ دوسری طرف نیشنل کمانڈ آپریشن سنٹر کی کامیابی کی کہانی پر غور کریں۔ اس کی کامیابی بنیادی طور پر منتخب نمائندوں اور ٹیکنو کریٹس کے درمیان مضبوط نامیاتی تعلقات اور دونوں کے درمیان باقاعدہ ہم آہنگی پر منحصر ہے۔ خطرے کے تقریباً ہر دوسرے شعبے میں سارا بوجھ بیوروکریسی کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو این سی او سی ماڈل کی روشنی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ڈھانچے میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری صورت میں، جیسا کہ کہاوت ہے، کہ 'کھیر کا ثبوت کھانے میں ہے'، آفات کی تباہی میں کمی اور ردعمل کا امتحان خود تباہی میں ہے، ویب سائٹ پر نہیں۔ جیسا کہ ہم خراب کھیر کو پھینک دیتے ہیں، ہمیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کاغذی شیر سے بھی نجات حاصل کرنی کی ضرورت ہے۔