ملک کے عدالتی نظام کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نوے دن کے اندر کرادیئے جائیں۔ ان دونوں صوبوں میں انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد دینی تھی ۔ الیکشن کمشن نے صوبہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لیے تیس اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ۔ صوبہ پنجاب میں اس الیکشن کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواران اور آزاد امیدواران اپنے اپنے کاغذات جمع کراتے پھرتے ہیں ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لیے 28 مئی 2023 ء مقرر ہو چکی ہے لیکن اس صوبہ کی بیوروکریسی اور لا ء اینڈ آرڈر کے ذمہ دار ان یعنی چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس جنہیں وفاقی حکومت مقرر کرتی ہے موجودہ غیر یقینی حالات میں الیکشن کرانے کے حق میں نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں ملک کی سرحدوں کے محافظ بھی کچھ انہی خیالات کے حامی ہیں۔ سچ پوچھیں اس وقت پورے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک پی ڈی ایم (PDM ) کے لیڈران ہیں ۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور ساتھ ہی اس پارٹی کے چیدہ چیدہ و نمایاں سیاستدان وفاق میں اہم وزارتوں پر براجمان ہیں۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کے اہم ارکان بھی وفاقی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے پاس ملک کی وزارت عظمیٰ ہے اور شریف خاندان کے ایک اور سپوت شہباز شریف کے نام کے ساتھ بھی وزیراعظم کا ٹائٹل لگ چکا ہے۔ پی ڈی ایم (PDM ) کی جماعتوں کی جو موج آج کل لگی ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ سچ پوچھیں ان حالات اور موج میلوں کو چھوڑنے کے لیے کس کا دل کرتا ہے۔ سو یہ بڑا واضح ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں کسی صورت نئے انتخابات نہیں چاہیں گی ۔موجودہ حالات کادوسر ا پہلو یہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ جاری ہے جس کی وجہ سے اس کے سیاسی مخالفین نئے الیکشن کا رسک کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس ملک کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس ملک کی عدلیہ انصاف دینے پر تلی ہوئی ہے جو موجودہ حکمرانوں کے دلوں کو ذرا نہیں بھا رہا۔ انہیں کون سمجھائے کہ انصاف کا پودا اگر ایک مضبوط درخت بن جائے تو اسی میں قوموں کے لیے اچھے مستقبل کی نوید ہوتی ہے ۔ بدقسمتی اس ملک کے عوام کی یہ ہے کہ اسے ایسے سیاستدان مل گئے ہیں جو اپنی جہالت اور خود غرضی کی اتھاہ گہرائیوںمیں ڈوبے ہوئے ہیں اور انھیں اپنے اور اپنے خاندانوں کے مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ عمران خان ایک ستر (70 ) سال کا بوڑھا ہے لیکن چونکہ اس کی زندگی کا خاصا حصہ بطور فاسٹ بولر کے گزرا ہے اور ہمیشہ وکٹ حاصل کرنا اس کا ٹارگٹ رہا ہے ، اس لیے وہ تھک کرنہیں بیٹھتا ۔ وکٹ کے لیے مسلسل دوڑنا اس کی فطرت ثانیہ ( 2nd nature ) بن چکا ہے۔ پی ڈی ایم (PDM ) کا اتحاد کسی بھی صورت میں عمران خان سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ظاہر ہے زندگی موت تو انسانوں کے ہاتھ میں نہیںہے اور وہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اللہ چاہے گا عمران خان زندہ رہے گا ؛ دوسری صورت اسے الیکشن سے دور رکھنا ہے ۔ موجودہ پی ڈی ایم حکومت ہر صورت اسے اور اس کی پارٹی کو الیکشن سے دور رکھنے کی کوشش کرے گی چاہے اسے کوئی بھی جتن کرنا پڑے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ سپریم کورٹ کے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی اسمبلیوں کے نوے دن میں الیکشنز کرانے کا فیصلہ ان کے دل کو کوئی خاص بھایا نہیں۔ اب دل ناداں نے یہ ٹھانی ہوئی ہے کہ چلو الیکشن تو ہوں لیکن ان سے کسی طور عمران خان کو دور رکھا جائے۔کسی طور اور کسی بھی طریقے سے اس کی پارٹی کا ان الیکشن میں شمولیت کا رستہ بند کر دیا جائے۔سچ سچ بتائیں کیا یہ کوئی سیاسی سوچ ہے ۔ لوگ سچ کہتے ہیںکہ اس ملک کے سیاستدانوں کی نہ کوئی سیاسی سوچ ہے اور نہ ہی ان کی پارٹیوںکا کوئی سیاسی منشور ہے ،یہ سب سوداگر ہیں لا متناہی دولت اکٹھی کرنے والے۔یہ سب چاہتے ہیں اس ملک پر حکمرانی ان کے خاندانوں کی رہے ، ان کے پوتروں دوتروں تک اس ملک پر حکمرانی کریں۔ جہاں سے ان کے خاندانوں کا گزر ہو عوام کے لیے وہ رستے بندکر دئیے جائیں۔ وہ اور ان کے خاندانوں کے افراد دنیا کے خوش حال ممالک کے مہنگے اور پوش علاقوں میں زندگیاں گزاریں۔ یہاں صرف حکمرانی کرنے آئیں اور جب دل چاہے باہر چلے جائیں۔لیکن اللہ کی ذات انسان کے ارادوں کو جب چاہے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دے۔ان کے مقابل ایک ایسا انسان آکر کھڑا ہو گیا جس کی ساری زندگی یورپ کی چکا چوند کرنے والی روشنیوں میں گزری لیکن اب وہ کہتا ہے میرا جینا مرنا اسی ملک پاکستان میں ہے ۔ میرا سب کچھ یہیں ہے اور میں نے مرنا بھی اسی ملک میں ہے۔اس کی باتیں ان لوگوں کے دلوں میں بھی گھر کر گئیں جو اس کی زبان بھی نہیں جانتے جیسے اس ملک کے پٹھان۔سنا ہے اس کے خلاف درج ہونے والے کیسز کی سنچری ہونے والی ہے، یعنی اس نے سنچریاں بنانے والی روایت ختم نہیں کی۔اس کے سیاسی مخالفین کو چاہیے کہ اس کا مقابلہ سیاسی میدان میں کریں۔ یقین کریں یہ نہ کوئی اتنا مدبر سیاستدان ہے اور نہ ہی بہتر حکمرانی کے رموز سے آشنا! اس ملک کے روایتی سیاستدانوں کے اندر کے خوف نے اسے نا قابل شکست سیاست دان بنا کر رکھ دیا ہے۔شکر ہے اس ملک کے نظم و ضبظ سے آشنا حلقوں نے اپنی غیر جانبداری قائم رکھی ہوئی اور قوم ان سے یہی توقع باندھے رہتی ہے۔