آج میرا دل چاہتا ہے کہ میں دعا کے بارے میں لکھوں۔ آخر شاعر ہوں تو ذہن میں وہی معروف شعر آیا: دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو اور دوسرا شعر اسلم کولسری کا یاد آیا: ایسا نہیں کہ حرف دعا بے اثر گیا کشتی کا ڈوبنا تھا کہ دریا اتر گیا بہرحال ان اشعارمیں شاعرانہ سی شکوہ آمیز باتیں ہیں۔ میں نے بھی انہیں تمہید کے طور پر لیا ہے دعا کو عبادت کا مغز کہتے ہیں۔ دعا ہی خدا کے ساتھ ایک ڈائریکٹ رابطہ ہے۔ خدا خود کہتا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں۔ وہ ضرور عطا کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ عطا میں پوشیدہ حکمت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ بھی کم شرف و کرم نہیں کہ خدا اپنے بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کی سند خود خدا نے عطا کر دی۔ آپ بھی تو یکسو ہو کر خوش و خضوع سے باریابی کی سعی کریں ۔ جیسے حالی نے کہا تھا’’جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں‘‘ اس میں نیت پر بہت دارو مدار ہے ویسے نیت بھی کیا چیز ہے کہ نیت پر ہی اجر مل جاتا ہے اس کے لیے عمل لازم نہیں دوسری طرف عمل کے لیے نیت لازم ہے میں بات کر رہا تھا دعا کی اس کی قبولیت انسان کسی نہ کسی لمحے محسوس کرتا ہے تو اس کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں: میری آنکھوں کو وہ خالی نہیں رہنے دیتا کہیں تارا کہیں مہتاب بنا دیتا ہے اصل میں دعا کی بنیاد ہماری احتیاجات و حاجات ہیں۔ اکثر وہ بھی تب کی بات ہے جب ہم مجبور ہو جاتے ہیں اور ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا۔ حالانکہ ہر معاملے میں رجوع خالق و مالک ہی سے کرنا چاہیے یہ بھی توفیق ہے کہ انسان آخر ہی میں دست بدعا ہو جائے۔ بات یہ ہے کہ ہم اپنی ضرورت کے تحت بارگاہ الٰہی میں ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ گویا ہماری ضرورت ہمیں خدا کے سامنے لے جاتی ہے اور ہمارا رابطہ اپنے پروردگار سے جڑ جاتا حمید حسین صاحب کہنے لگے کہ دیکھیے ہماری حاجت اور طلب کتنی کمال چیز ہے کہ ہمیں اللہ کے ساتھ رابطے میں لے آتی ہے یہ ضرورت سے زیادہ قیمتی شے ہے۔ میں اپنی بات سمجھانے کے لیے حضرت رابعہ بصری کا وہ مختصر سا واقعہ لکھوں گا کہ جب وہ ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے میں پانی لیے جا رہی تھیں۔ کسی نے کہا یہ کیا؟آپ نے کہا میں دوزخ کو بجھانے اور جنت کو جلانے جارہی ہوں کیونکہ لوگ جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ درمیان سے ان دونوں کو ہٹا دینا چاہیے۔ اللہ کی عبادت تو اس لیے ہے چونکہ وہ لائق عبادت ہے ایک بات ذہن میں رہے کہ یہ حال کا معاملہ ہے‘ اصلاح کے لیے ہے یا تربیت کے لیے۔ اس کو تعلیم نہیں کہا جا سکتا۔ قال اور حال کے معاملات چلتے آئے ہیں۔ بعض دفعہ یہ حال وقتی ہوتا ہے اور بعض اوقات دائمی اس پر کسی کو روکنا نہیں چاہیے۔ یہ عشق و محبت کی منزل ہے ۔ مثلاً حضرت ابوزر غفاریؓ کا فرمان ہے کہ اگلے روز کے لیے بھی نہیں بچانا چاہیے کہ یہ توکل کے خلاف ہے۔ یہ حال کا معاملہ تھا‘ اسے قانون نہیں بنایا جا سکتا مگر اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بات سمجھنے والی یہ ہے کہ اپنی احتیاج اور ضرورت کو اولیت نہیں دینی چاہیے۔ اگر یوں سوچا جائے کہ میری ضرورت مجھے اپنے آقاؐ تک لے آتی ہے نہ کہ بس یہ ضرورت پوری ہو جائے۔ بعض تو دعا کے معاملے میں عجلت کرتے ہیں‘ اس سے روکا گیا ہے۔ دعا کی فوری قبولیت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے بعض دعائیں حکمتاً قبول نہیں کی جاتیں۔ ان کا اجر مگر ہے‘ بعض اوقات دعا کے صدقے میں کوئی بلا اور ہماری رفع کر دی جاتی ہے ویسے بھی اللہ کواپنا بندہ مانگتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔ انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اس عمل میں اپنے مالک کی خوشنودی کو محسوس کر کے سرشار ہو جائے۔اب یہ بھی معاملہ حال کا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے اول و آخر درود پڑھیں۔ مگر بزرگوں کی بات گہری اور قیمتی ہے کہ صرف دعا کی قبولیت کے لیے کہوں‘ ویسے ہی درود پڑھتے رہنا چاہیے حاجات ویسے ہی پوری ہو جاتی ہیں حاجات ویسے ہی پیچھے رہ جاتی ہیں جب اپنے آقاؐ پر بندہ درود پڑھ رہا ہے اور یہ درود آقاؐ تک پہنچ رہا ہے۔ ایک بزرگ نے تو درود ہی کو جاری رکھنے کا کہا۔ اس سے بڑی دعا کیا ہے جو حضورؐ اور ان کی آل کے لیے ہو۔ اس کے اثرات ثمرات کی طرح درود پڑھنے والے کی جھولی میں خود ہی آن گریں گے۔ واقعی کیا ہم نے کبھی ایسے ہی کبھی ایسے سوچا کہ اپنی ضرورت یا حاجت کو عزیز جانا کہ یہ ذریعہ یا سبب بنی کہ میں اللہ کے حضور حاضر ہو کرہاتھ اٹھائوں۔ اس طرح ادراک کریں تو ہماری ضرورتیں خوبصورت ہو جائیں گی جو اپنے اللہ سے ملاقات کا سبب بن گئیں۔ بس یہی ذہن میں رہے کہ اللہ پاک کو اپنی بات سنا دی۔ اب اس کی مرضی ہے وہ جو بھی کرتا ہے وہی میاں محمد والی بات: مالی دا کم پانی لانا بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم پھل پُھل لانا لاوے یا نہ لاوے پانی لگانے کے بعد بھی دعا کی ضرورت ہے۔ دیکھا جائے تو دعا اپنے رب سے ایک تعلق کا نام ہے۔ میں نے خانہ کعبہ کے سامنے کچھ اس طرح سوچا تھا: سعد حجت ہے مری بات پہ عظمت اس کی اس نے در سے تو کسی کو نہیں ٹالا ہے میاں یہ تو مقدس مقام کی بات ہے مگر اللہ تو اپنے بندے کی بات ہر جگہ سنتا ہے بہرحال دینے اور نوازنے میں اس کی اپنی حکمتیں ہیں۔ ہمیں تو اس کے حضور ہاتھ پھیلائے رہنا چاہیے۔ ایسی کیفیت حاضری کی ہو جائے گی کہ ضرورتیں بھول جائیں گی اور اصل مقصد خدا کے ساتھ تعلق مہکنے لگے گا۔ منیر سیفی یاد آ گئے: اس سے خواب بھی مانگا کر جس نے نیند اتاری ہے مجھے پروین شاکر کا خوبصورت شعر بھی یاد آ گیا: میری طلب کا ایک شخص وہ جو نہیں ملاتو پھر ہاتھ دعا سے یوں گرے بھول گئی سوال بھی ایسے دل میں آیا کہ اگر طلب اللہ بن جائے بہت کچھ ویسے ہی مل جاتا ہے۔ ویسے کوئی دعا کر کے بھی نہیں ملا تو ممکن ہے اس محرومی ہی میں بھلا ہو۔ امجد صاحب نے کہا تھا وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا ۔کچھ ایسے بھی تو ہیں اپنے حال میں مانگنا بھی ٹھیک نہیں سمجھتے کہ یہ کمتر چیز ہے بات سمجھانے کے لیے مجھے آپ کو عبدالرحمن بن عبداللہ کا واقعہ بیان کرنا پڑے گا۔ وہ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے تھے حاکم وقت نے انہیں دیکھا تو پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ آپ قرآن پا ک کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو حاکم وقت کہنے لگا میں آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مانگیے کیا چاہتے آپ کہنے لگے ’’ میں خانہ کعبہ کے سامنے ہوں۔ میں تجھ سے کیا مانگوں‘‘۔ وہ چل دیا مگر وہ آپ کا پیچھا کرتے ہوئے مکہ کے ایک بازار میں آپ کے سامنے آ گیا اور کہا کہ اب تو آپ خانہ کعبہ کے سامنے نہیں۔ میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ عبدالرحمن بن عبداللہ نے کہا کہ مدد اخروی ہو گی یا دینوی۔ اس نے کہا اخروی تو نہیں ہو سکتی یقینا دنیاوی ہے۔ آپ نے کہا دنیا تو میں نے اس سے کبھی نہیں مانگی جس کی ہے: منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ہو جن کو بے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں تو معزز قارئین:معلوم نہیں میں آپ تک بات پہنچا پایا ہوں کہ نہیں۔ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ جب میں کوئی اچھی بات سنتا ہوں تو آپ تو پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں آپ میری بات کو سمجھنے کے لیے خود بھی کوشش کیا کریں۔ دعا ایک عاجزی ہے ‘ انکساری ہے اور حاضری ہے۔ نذیر قیصر نے کیا خوب صورت شعر کہہ رکھا ہے: محراب پر جھکی ہوئی پھولوں کی بیل ہو محراب میں چراغ دعا ہونا چاہیے ظاہر ہے جب تک دل ہتھیلی پر نہ آئے تو مانگنے کا مزہ کیا۔ اصل چیز تو دینے والا ہے وہی مل جائے تو پھر باقی کیا رہ گیا۔