الٰہ العالمین ہمیں اپنی قدرت کی بے شمار نشانیاں دکھارہاہے لیکن ہم ہیں کہ اپنی آنکھوں سے قدرت کی نشانیوں کوحق الیقین کے ساتھ دیکھ بھی تفکر نہیں کرتے۔یکم اپریل 2020ء کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کے پیش نظر عوام کو ماسک نہ ملنے پر اسکارف سے چہرہ چھپانے کا مشورہ دے دیا۔ امریکی صدر نے ملک میں تیزی سے بڑھتے کورونا وائرس کیسز کے باعث عوام کو حفاظتی تدابیر کے طور پر مشورہ دیا کہ اگر ماسک دستیاب نہیں تو متبال لے طورپر اسکارف کا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ تقریبا ہر کسی کے پاس اسکارف ہوتا ہے، جو لوگ ماسک پہننا چاہتے ہیں وہ پہن لیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن میں مشورہ دوں گا کہ بازار جاکر ماسک خریدنے کے بجائے اسکارف پہن سکتے ہیں۔ مغربی دنیا مسلمان خواتین کے حجاب کوقبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ حجاب سمیت اپنے عقیدہ، مذہب اور ثقافت سے متعلق ہر چیز سے دستبردار ہو کر مغرب کی مسلط کردہ ثقافت کو قبول کریں۔ گویا ان کے سیکولرازم کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین و ثقافت سے دستبردار ہونے کا حق تو ہے مگر اس پر عمل کرنے اور اپنی سوسائٹی میں اپنے دین و ثقافت کا ماحول قائم رکھنے کا حق حاصل نہیں ہے۔اس سے بڑی ستم ظریفی ہمارے لوکل دانشوروں کا یہ اصرار کہ یہ کشمکش مذہبی اور ثقافتی نہیں ہے۔ یورپ کے کئی دیگر ممالک میں حجاب سے متعلق قوانین بنائے گئے اوران پر عمل درآمد ہورہاہے۔ حجاب اور نقاب کو ایک عرصہ سے مغربی دنیا میں مسلمانوں کی ثقافت کی علامت قرار دے کر نفرت اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔عورتوں کا حجاب یا چہرے کو ڈھانکنے والا نقاب مغرب کے کئی ممالک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔مغرب کی طاغوتی قوتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اسلام مخالف اقدامات، دراصل مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں ہیں؛ کیوں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، جس طرح مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس نے صہیونی آلہ کاروں کی نیندیں اڑادی ہیں، صرف امریکا میں سالانہ ہزار افراد دائرئہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اب تک جس تہذیب وتمدن کو مادہ پرستی اور خدا بیزاری کے لباس میں پیش کیا جاتا رہا ہے، آج وہ دیمک زدہ لکڑی کی تصویر پیش کررہی ہے۔ کل تک جس کلچر اور ثقافت کو مثالی کہا جاتا تھا، آج اسی کے دل دادہ اس سے اعلانِ برت کررہے ہیں، مغرب میں اسلام کی روز بہ روز بڑھتی مقبولیت، اسلام کی حقانیت اور آخری بنی ؐ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہی کہی جاسکتی ہے۔ حجاب پر پابندی سب سے پہلے فرانس میں 2010ء میں متعارف کی گئی تھی۔ قانون کے مطابق،عوامی جگہوں پربا حجاب خواتین کو اجازت نہیں ہے اوراس طرح حجاب پر پابندی عائد کی گئی۔ اس وقت کے صدر نکولس سرکوزی نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں205 امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔فرانس کی تقلیدکرتے ہوئے بلجئیم نے بھی2012میں ایک قانون متعارف کیا جس کے تحت حجاب پر 2012 ء میں پابندی عائد کر تے ہوئے باحجاب خواتین پر 380یورو جرمانہ اور سات دن تک کی قید کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مئی 2015 ء میںہالینڈ نے اسلامی حجاب کو سرکاری عمارتوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی حمل و نقل کی جگہوں پر ممنوع قرار دیا۔ عدم عملدرآمد کی صورت میں 285 پائونڈ اسٹرلنگ تک کا مساوی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح قفقاز علاقے میں بڑھتے روسیوں اور مسلمانوں کے تصادم کے پیش نظر سٹاوروپول کے ارباب مجاز نے مملکت کے زیر انتظام اسکولوں میں اسکارف پر پابندی لگادی۔ اس فیصلے کی روسی سپریم کورٹ نے توثیق کی ہے۔اسپین2010 ء میں برشلونہ شہر کی بلدیہ عمارتوں میں برقع اور نقاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ستمبر 2013 ء میں سوئٹزرلینڈ کے اطالوی زبان گروہ کی جانب سے نقاب پر پابندی لگانے کے حق میں ووٹ کیا۔ ڈنمارک2008 ء سے ججوں پر عدالتی احاطے میں برقع یا اسی طرح کے مذہبی یا سیاسی نشانات پر پابندی عائد ہے۔ پابندی سوویت یونین کی سابقہ جمہوریہ لٹویا نے عورتوں پر اسلامی طرز کے مکمل چہرے کے حجاب پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی ہے۔ نیدرلینڈز میں بھی عوامی مقامات، ہسپتال، سکول اور پبلک ٹرانسپورٹ میں حجاب پر پابندی لگا دی ۔ بلغاریہ میں نقاب پر پابندی ہے اور وہ عوامی مقامات، سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں اور تفریحی مقامات کی حدود میں لاگو ہوتا ہے۔خلاف ورزی کرنے کی صورت میں 668 ڈالرتک جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور ان عورتوں کی سرکاری سہولیات بھی منہا کر لی جاتی ہیں۔ جرمنی میں عام عوام پر تو کوئی پابندی نہیں ہے لیکن سرکاری اہلکار اور فوج میں کام کرنے والے افراد کے لیے ایسے کپڑے پہننے غیر قانونی ہے جس سے ان کا چہرہ ڈھک جائے اور2017ء سے قانون نافذ ہے۔ ڈنمارک میں بھی حجاب پر پابندی کا قانون نافذ ہے اور اس قانون کے نفاذ کے فورا بعد ایک مسلمان خاتون پر نقاب پہننے کی پاداش میں 120پائونڈ کا جرمانہ عائدکیاگیا۔ برطانوی حزب اقتدارکنزرویٹو پارٹی کے اہم رہنمااورموجودہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ قبل5اگست 2019ء کو باحجاب مسلم خواتین حجاب کے خلاف شرمناک ریمارکس دیئے۔ انھوں نے برقع پہننے والی مسلمان خواتین کا مذاق اڑاتے ہوئے انھیں’’بینک ڈاکو،ڈکیٹ اور ڈاک خانہ‘‘قرار دیا تھا۔بورس جانسن نے ڈیلی ٹیلیگراف میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ ایسی خواتین جو اپنا پورا چہرہ چھپانے کی خاطر برقعہ پہنتی ہیں، وہ یا تو بینک لوٹنے والوں کی طرح نظر آتی ہیں یا پھر کسی لیٹر باکس کی طرح۔ جانسن نے اپنے مضمون میں لکھاکہ لبرل اور ترقی پسند معاشروں میں خواتین کو ایسے لباس پہننے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے، جن سے ان کی خوبصورتی اور زخم چھپ جائیں۔بورس جانسن نے لکھا، اگر ہم لبرل اقدار کے لیے آواز اٹھانے میں ناکام ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم انتہا پسندوں اور رجعت پسندوں کو پنپنے کا موقع دے رہے ہیں۔