عالمی شہرت یافتہ مائنڈ ایکسپرٹ (آنجہانی) ٹونی بیوزان کے چار پانچ سال پہلے لئے گئے ایک غیر مطبوعہ انٹرویو کے چند اقتباسات اپنے پچھلے کالم میں شائع کئے تھے۔یہ انٹرویو میری کتاب کے لئے کیا گیا۔ٹونی بیوزان، مائنڈ میپ کا بانی ہے۔ سپیڈ ریڈنگ اورمیموری کے حوالے سے اس کی ڈیڑھ سو کے قریب کتابیں شائع ہوئیں۔ ٹونی بیوزان پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے بہت اچھے خیالات رکھتا تھا۔ اس کی یہ پسندیدگی حقیقی تھی، ورنہ ایک ایسا نامور مائنڈ ایکسپرٹ جو دنیا کے بے شمار ممالک میں لیکچر دے چکا ہے، جسے مہنگے ترین سپیکرز میں شامل کیا جاتا ہے، جو اپنی ستراکہتر سالہ زندگی میں بمشکل دو بار پاکستان آیا، اسے کیا پڑی تھی کہ پاکستانیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کرے؟پاکستان میں انفرادی سطح پر اس کی پزیرائی ہوئی، مگر حکومتی سطح پر ایسا کچھ خاص نہیں ہوا کہ ٹونی بیوزان پر اس کا اثر رہ جاتا۔ اس نے بتایا تھا کہ ملائشیا، جنوبی کوریا، سنگار پور اور بعض دیگر ممالک میں حکومتوں نے بڑے پیمانے پر اپنے سکول ٹیچرز کو مائنڈ میپ کی تربیت دلانے کے لئے فٹ بال سٹیڈیم میں اس کے پروگرام کرائے۔ ملائشیا کے ایک پروگرام میں پینتیس ہزار سکول ٹیچرز شریک تھے اور بڑی سکرینیں لگا کر ٹونی بیوزان ان اساتذہ کو مائنڈ میپ بنانا سکھاتا رہا۔گزشتہ کالم کو پڑھ کر ایک قوم پرست دوست نے تبصرہ کیا کہ یہ تو ’’مطالعہ پاکستان‘‘ والا انٹرویو لگتا ہے۔انہیں جواب دیا کہ ٹونی بیوزان اگر پاکستان کو اچھا سمجھتا تھا تو ظاہر ہے ہم آپ کیا کر سکتے ہیں؟ٹونی بیوزان نے اقبال کو باقاعدہ پڑھ رکھا تھا، وہ شاہین کے تصور سے بھی واقف تھا اور اقبال کو جدید انسانی تاریخ کے چند بڑے دماغ میں سے ایک سمجھتا تھا۔ انٹرویو کرتے ہوئے انکشاف ہوا کہ عقاب خود ٹونی بیوزان کا پسندیدہ پرندہ ہے، اسے ایک مشہور انگلش شاعر کی نظم’’ ایگل ‘‘بچپن سے یاد تھی، مزے لے کر سنائی، پھرکہنے لگا کہ عقاب ایک شاندار استعار ہ ہے، آپ کے اقبال نے اسے خوب برتا۔ ٹونی بزان کا سب سے بڑا کام مائنڈ میپ (Mind Map)کی ایجاد ہے۔ انسانی دماغ پراپنی ریسرچ سے ٹونی کو اندازہ ہواانسانی دماغ امیج کی شکل میں سوچتا اور یاد رکھتا ہے۔ انسانی دماغ درخت کے انداز میں کام کرتا ہے، جس کی شاخیں دائیں بائیں پھیلی ہوئی باہر کو نکلی ہوتی ہیں، ہر شاخ سے مزید شاخیں پھوٹتی ہیں۔ ٹونی نے مائنڈ میپ کو اسی انداز میں تیار کیا۔ کسی بھی ایشو پر غور کرنا ہو، یاد کرنا ، سوچنا ہو ، اس کے حوالے سے ایک درخت سا بنا لیا جائے۔طریقہ آسان ہے ، اے فور سائز کا سفیدصفحہ لے لیں۔ درمیان میں ایک چھوٹا بیضوی سا دائرہ بنالیں، اس پر جس بارے میں سوچنا ہو ،ا س کے حوالے سے کوئی تصویر یا امیج بنا لیں۔مائنڈ میپ کے اصول کے مطابق درمیان میں کسی لفظ کے بجائے امیج یا تصویر ہونا ضروری ہے(مشہور اصول یادرکھیں کہ ایک تصویر ہزار لفظوں کے برابر ہوتی ہے)۔ مائنڈ میپ کے تین چار بنیادی اصول ہیں۔ اسی بیضوی دائرے سے مختلف شاخیں(موٹی لکیریں) نکلیں گی، ہر شاخ پر کوئی خاص پوائنٹ لکھنا ہے، مگر صرف ایک لفظ پر مشتمل ہو۔ مختلف شوخ رنگ جیسے سرخ، سبز، نیلا، گلابی،پیلا وغیرہ استعمال کئے جائیں۔ ٹونی بیوزان کے مطابق انسانی دماغ ایک لفظ پر مشتمل کسی نکتہ کو اچھی طرح یاد رکھتا ہے، اسی طرح دماغ شوخ رنگوں اور تصاویر کو اچھے طریقے سے شناخت کرتا اور حافظے میں محفوظ کر لیتا ہے۔ مائنڈ میپ میں تمام شاخیں یعنی لکیریں موٹی سے پتلی ہوتی جائیں گی، جیسے درخت میں ہوتا ہے۔کوئی لکیر سیدھی نہیں ہوگی کہ دماغ سادہ اور سیدھی لکیر میں لکھی گئی تحریر کوزیادہ دیر یاد نہیں رکھ سکتا۔ انسانی دماغ کا فطری انداز ہلکی سی قوس نما لکیر سے ملتا ہے ۔ اس طرح شاخ در شاخ تقسیم کرتے جائیں۔ اپنے خیالات،اہم نکات ہر شاخ اور پھر اس سے نکلتی چھوٹی شاخوں پر لکھتے جائیں۔ یوں ایک اے فور( A4)سائز کے کاغذ میں پورے پورے پراجیکٹ کے مائنڈ میپ بن جاتے ہیں۔ کئی سو صفحات کی کتاب پڑھنے کے بعد اس کے بنیادی نکات پر مشتمل ایک مائنڈ میپ بنا یا جا سکتا ہے۔ وہ مائنڈ میپ محفوظ کر لیا جائے تو اگلی بار اس کتاب کا خلاصہ چند منٹوں میں جان لیا جائے گا۔نیٹ پر میں نے اس حوالے سے ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ آئی بی ایم، مائیکرو سافٹ جیسی بڑی بڑی کمپنیوں میں اب تحریری نوٹس کے بجائے مائنڈ میپ بنانے کا رجحان ہے۔ اس طریقہ سے انسانی دماغ زیادہ بہتر اور منظم انداز میں سوچ اور کام کر سکتا ہے ۔ ٹونی بزان نے سپیڈ ریڈنگ تکنیک بھی ایجاد کی، جس سے پڑھنے کی رفتار دو تین گنا تیز ہوجاتی ہے۔ ٹونی بیوزان نے پاکستانیوں کو مشورہ دینے کے سوال پر تین اہم نکات کا ذکر کیا۔ اس کا کہنا تھا:’’ بچوں کو سکول میں خواب دیکھنا سکھانا چاہیے۔دنیا کے بہت سے ملکوں میں بچوں کو خواہ مخواہ پریکٹیکل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں زیادہ منطقی اور ریشنل بنایا جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں وہ وقت آنے پر سیکھ لیں گے۔ بچپن ، خاص کر پرائمری کلاسز میں انہیں خواب دیکھنا، خواب تخلیق کرنا سیکھنا چاہیے۔ ایسے بڑے خواب جنہیں مکمل کرنے کے لئے ان کے اندر جذبہ پیدا ہو۔ دنیا کو تبدیل کرنے والے بڑے لوگ ،جو اس کائنات کے ذہین ترین انسان تھے، ان میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ بچپن میں خواب دیکھا کرتے تھے۔وہ خیالا ت میں ڈوبے رہتے اور نت نئے ، اوٹ پٹانگ ، مختلف قسم کے خیالات سوچا کرتے اور پھر بڑے ہو کر انہوں نے وہ سب کر دکھایا۔ سائنس کی شکل بدل دی، چاند پر پہنچ گئے، کھیلوں میں حیران کن کامیابیاںممکن کر دکھائیں، آرٹ کے شاہکار بنائے، موسیقی میں انقلاب برپا کر دیا، اپنے ملکوں کی سیاست تبدیل کر دی۔ ’’دوسرا سکولوں میں رنگوں کا زیادہ بہتر استعمال سکھانا چاہیے۔بہت ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی رنگ کم برتے جاتے ہیں۔ بچپن میںبلیک کلر کی لیڈ پینسل اور پھر بعد میں صرف نیلا یا کالا رنگ ۔ آخر کیوں ؟ انسانی دماغ رنگوں کو پسند کرتا، ان کی طرف کشش کرتا اور رنگوں ہی میں سوچتا ہے۔ جب پھیکے رنگ برتے جاتے ہیں تو بچوں کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے، وجہ یہ ہے کہ دماغ بور ہو کر اپنے دروازے بند کر دیتا ہے۔ رنگ تخلیقیت کو بڑھاتے ہیں۔ سکولوں میں ہر طر ف رنگ بکھرے ہونے چاہئیں، کتابوں کو پڑھنے اور پھر ہاتھ سے لکھنے میں مختلف دلکش رنگ استعمال کئے جائیں۔ ڈرائنگ اور آرٹ کا سکول ایجوکیشن میں حصہ بڑھنا چاہیے۔( ٹونی بیوزان کی تین کتابیں میرے پاس ہیں، ان سے زیادہ خوش رنگ ٹیکسٹ والی کتابیں کہیں نہیں دیکھیں۔) ’’تیسری کمزوری بچوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی بڑوں کو بھی دور کرنی چاہیے۔ وہ ہے اچھی اور متوازن خوراک۔ میری پچاس سالہ تحقیق بتاتی ہے کہ صحت مند جسم صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے۔ ہم جو کھاتے ہیں، ہمارے دماغ کی ویسی ہی ساخت بنے گی۔ جنک فوڈ کھائیں گے… برگر، پیزا، آئس کریم، مٹھائیاں،آئل( گھی )میں تربتر سالن،طرح طرح کے چپس ، چاکلیٹ وغیرہ کھاتے رہنے سے دماغ بھی جنک ہی پیدا کرے گا۔ تب یہ سمجھ لیا جائے کہ تخلیقی سوچ اور نئے آئیڈیازاس چربی کے نیچے دفن ہوجائیں گے۔ صحت مند غذا کھانے والے کا دماغ نیچرل انداز میں کام کرتا رہے گا۔ دودھ، پھل ، سبزیاں، سلاد، نٹس(ڈرائی فروٹ)وغیرہ اپنی غذا میں شامل کریں۔ تازہ ہوا لیں، فطرت کے حسن کو دیکھیں، اس سے ہم آہنگ ہوں، پھول، سبزہ، پانی، درخت، سرسراتی ہوائوں کو محسوس کریں، صبح کی سیر ،(اپنے اپنے طریقہ سے) عبادت میں پابندگی، موسیقی، آرٹ ،بڑے تناظر میں سوچنا، بڑے خواب دیکھنا اور ان کی عملی تعبیر پانے کے لئے سرگرداں ہوجاناہی کامیابی کے راز ہیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے یہی کیا، بیس کروڑ پاکستانی ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ‘‘ رنگوں والی بات ٹونی بیوزان نے اپنی تحقیق اور مشاہدات سے سیکھی تھی۔ اس کا کہنا تھاکہ ابتدائی زندگی میں دوسروں کی طرح چند مخصوص رنگوں والے ملبوسات استعمال کرتا رہا، لکھنے کے لئے نیلا یا کالا پین استعمال کرتا۔پھر پتہ چلا کہ گلابی رنگ انسانی دماغ کے تخلیقی جوہر کو تیز کرتا ہے، تب سے سب کچھ بدل دیا۔کہنے لگا کہ معلوم نہیں کس نے یہ ٹرینڈ ڈال دیا ہے کہ رنگین کپڑے خاص کر سرخ اور گلابی صرف خواتین استعمال کر سکتی ہیں۔ اس بیرئرکو توڑ دینا چاہیے۔ اپنی پسند کے مطابق ، ڈیسنٹ انداز ہی سے سہی، مگر مردوں کو بھی شوخ رنگ برتنے چاہئیں۔ لاہور میں اس کے دو سیمینارز میں شریک ہوا، دونوں میں ٹونی بیوزان نے مختلف شیڈز کے ساتھ ، مگر پنک شرٹ ہی زیب تن کی تھی۔ اس کے کمرے میں جہاں انٹرویو کیا،لکھنے کی میز پر بلا مبالغہ درجن بھر طرح طرح کے شوخ رنگوں والے قلم، کلر پینسلیں، گلابی شیڈز والے کریون ترتیب سے لگے تھے۔ کتاب پر میں نے آٹو گراف لیا تو اس کے لئے بھی پنک کریون پینسل استعمال کی۔ مجھے دلچسپی سے تکتے دیکھ کر ٹونی بیوزان مسکراکر بولا،یہ ذاتی پسند والامعاملہ نہیں بلکہ لکھاریوں اور سوچنے سمجھنے والوں کو یہی رنگ استعمال کرنے چاہئیں۔ ٹونی بیوزان سے سوال کیا کہ اپنی زندگی میں کیا سبق سیکھے اور کون سی ایسی شخصیات ہیں جن سے وہ انسپائر ہوا؟ انگریز بابے کا جواب دلچسپ تھا، ایک پاکستانی خاتون کا نام بھی اس نے لیا۔ کالم کی گنجائش مگر ختم ہوئی۔ اللہ نے چاہا تو اگلی نشست میں اسے بیان کریں گے۔