’’تمہیں نہیں معلوم کہ تمہاری موت کس سرزمین پرآئے گی۔‘‘ گزشتہ مئی میں حصول تعلیم اور امریکہ کی معاشرتی زندگی کو قریب سے دیکھنے کے ایک سالہ پروگرام کے لیے سبیکا کا انتخاب ہوا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ کراچی پبلک سکول میں او لیول کی طالبہ تھی۔ سبیکا 9 جون کو واپس اپنے پاکستان آنے والی تھی مگر کسے اندازہ تھا کہ قضا و قدر نے اس کھلتی ہوئی نوخیز کلی کو عین عالم بہار میں توڑ لینے کے لیے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر سانٹا فی کو مقررکر رکھا ہے۔ جب کوئی اپنا بچھڑتا ہے تو اپنے پیاروں کو سوگوار اور غمزدہ چھوڑ جاتا ہے مگر بعض اموات ہماری محبت و چاہت کے زمینی پیمانوں کے حساب سے بے وقت ہوتی ہیں اور ہمیں بہت اداس کرجاتی ہیں مگر جب کوئی بیٹی دیار غیر میں یوں ہلاک کردی جائے تو بیٹی کے باپ اور اس کی ماں پر جو کچھ گزرتی ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ اگر کوئی ذرا سا اندازہ کرسکتا ہے تو وہ کسی بیٹی کا باپ ہی کرسکتا ہے۔ سبیکا کے والد عبدالعزیز شیخ، اس کی والدہ اور دیگر اہل خانہ نے غم کے پہاڑ تلے دب کر بھی جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے وہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ تبھی تو اللہ والے کہتے ہیں کہ جو غم دیتا ہے وہ غم کے اس پہاڑ کو برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق بھی دیتا ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر امریکی تہذیب و ثقافت کے گن گانے والوں کو ہرگز اندازہ نہیں ہوتا کہ امریکی سکولوں میں اس طرح کے حملے اور ان حملوں میں بڑی تعداد میں مارے جانے کے واقعات شاذ و نادر نہیں بڑے تسلسل کے ساتھ ہوتے ہیں۔ امریکہ میں سکول کے بچوں کو ہلاک کرنے کی یہ اس ہفتے کی دوسری واردات جبکہ اس مہینے کی تیسری اور اس سال کی 16 ویں واردات ہے۔ ایک سال میں امریکی نوجوان کے بے لگام رویوں اور بندوقوں کے بے دریغ استعمال سے سینکڑوں بچے اور جوان لقمہ اجل بن گئے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق 2012ء سے لے کر مارچ 2018ء تک اس طرح کی پرتشدد وارداتوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 7182 ہے جبکہ 2001ء سے لے کر اب تک بیرون امریکہ مختلف جنگوں اور آپریشنز میں ہلاک ہونے والے امریکی سپاہیوں اور دیگر سٹاف وغیرہ کی کل تعداد 6,915 ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ بار بار تسلسل کے ساتھ ہونے والے ان خطرناک، خوفناک اور ہولناک واقعات سے نمٹنے کے لیے امریکی سوسائٹی اور امریکی حکومتوں نے کیا اقدامات کئے۔ یہ قومی ٹریجڈی تو ایسی ہے کہ اس کا تدارک کرنے کے لیے امریکہ میں قومی سطح پر ایمرجنسی کا نفاذ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی بھی نہیں دے رہا۔ امریکہ کے مقابلے میں پاکستانی تعلیمی اداروں میں ہونے والی اس طرح کی وارداتوں کی تعداد بہت کم ہے اور گزشتہ چند سالوں کے دوران تعلیمی اداروں پر حملوں کے جو واقعات ہوئے وہ بیرونی طاقتوں کے ایما پر بیرون پاکستان سازشوں کے ذریعے ہوئے مگر ان کے تدارک کے لیے پاکستان نے فوری طور پر نہایت موثر اقدامات اٹھائے اور بڑی حد تک ایسی وارداتوں اور گھاتوں کا قلع قمع کردیا ہے۔ امریکی سکولوں میں گن شوٹنگ کے ایسے واقعات کے رونما ہوتے ہی امریکی پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر زبردست مہم چلتی ہے مگر چند روز جاری رہنے کے بعد یہ مہم دم توڑ دیتی ہے۔ حکومتی و ریاستی سطح پر اس امریکی بے حسی کے بہت سے اسباب ہیں۔ ایک ضروری بات جان لیجئے کہ امریکہ میں گن کی خریداری کے لیے کوئی لائسنس نہیں۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر سانٹا فی میں سبیکا کے سکول میں ہونے والی واردات میں اسی سکول کے ایک طالب علم نے 10 طلباو طالبات کو ہلاک کردیا۔ اس ٹریجڈی کے بعد ایک بار پھر قومی سطح پر بحث شروع ہو گئی کہ ہم گن کے حصول کے لیے لائسنس کو لازمی کیوں نہیں قرار دیتے۔ گن کے حصول پر قدغن لگانے کی ہر مہم ناکامی سے اسی لیے دوچار ہوتی ہے کہ امریکہ کی تین بڑی لابیوں میں سے ایک ’’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘‘ ہے۔ 1871ء میں قائم ہونے والی اس ایسوسی ایشن کے 2013ء میں ممبران کی تعداد 5 ملین ہو چکی تھی۔ رائفل ایسوسی ایشن نے سیاست دانوں، سینیٹروں اور وفاقی و ریاستی سطح پر مختلف قانون ساز اداروں سے مسلسل رابطے کے لیے ایک پولیٹیکل ایکشن کمیٹی بنا رکھی ہے اور ہر ایسی قانون سازی کا راستہ روکتی ہے کہ جس کے ذریعے امریکہ میں گن کے آزادانہ حصول پر کسی طرح کی بھی قدغن لگنے کا کوئی خدشہ و خطرہ ہوتا ہے۔سانٹا فی سکول کے نوجوان قاتل نے بتایا کہ ہمارے گھر میں بندوق، پستولوں کی بہتات ہے اور میں جمعہ کے روز اپنے ہم سکول میں اپنے مکتب طلبہ کے قتل کے لیے وہ اپنے والد کی ایک شاٹ گن اور ایک ریوالور لایا تھا۔ اسی برس فروری میں ڈگلس ہائی سکول فلوریڈا میں اسی نوعیت کے قتل عام میں 14 طلبہ اور تین اساتذہ سمیت کل 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس موقع پر امریکہ بھر میں شدید احتجاج ہوا تھا۔ 13مارچ 2018ء کو واشنگٹن میں بڑا بھرپور احتجاج ہوا تھا جس کے دوران کیپٹل ہل بلڈنگ واشنگٹن کے لان میں پرانے جوتوں کے 7000 جوڑے رکھے گئے جس سے مراد یہ تھی کہ چند سالوں میں یہ نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اتنے بڑے نقصان اور اتنی بڑی قومی ٹریجڈی کے بعد امریکی حکومت اور ریاست کا عملاً ووٹ ہلاک ہونے والے نوخیز پھولوں اور ان کے پیاروں کے حق میں نہیں بلکہ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے حق میں جاتا ہے۔ سانٹا فی سکول کی ان افسوسناک ہلاکتوں کے بعد سی این این نے جو رپورٹ دکھائی ہے، اس میں ملالہ یوسف زئی اور سبیکا دونوں کی ہلاکتوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں حصول علم کے دوران حملوں کی زد میں آئیں۔ایک خوش قسمتی سے بچ گئیں اور پھر انہیں عالمی شہرت بلکہ نوبل پرائز تک ملا جبکہ اسی طرح کی ایک ٹریجڈی کا سبیکا نشانہ بنیں اور ان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ لگتا یہ ہے کہ دنیا جلدی سبیکا کو بھول جائے گی اور یہ ایک اور ٹریجڈی ہوگی۔ سی این این نے ایک بار پھر گن کنٹرول کا موضوع بھی چھیڑا ہے اور اس بارے میں عمومی سرد مہری کا ذکر بھی کیا ہے۔ ٹیکساس کے سانحے والے روز شام کو ایک پریس کانفرنس کی اور کسی روک ٹوک کے بغیر بندوقوں کے حصول کو نشانہ تنقید بنانے کی بجائے سانٹا سکول کے ڈیزائن پر اعتراض کیا کہ سکول میں داخل ہونے اور سکول سے نکلنے کے کئی راستے ہیں اگر سکول کا مرکزی مدخل ایک ہوتا تو پھر اس حادثے کے امکانات بہت کم ہو جاتے۔ گورنر کے بیان پر بھی تنقید ہوئی کیونکہ انہوں نے بندوقوں کے بے لگام کلچر پر کوئی طبع آزمائی نہیں کی۔ اس موقع پر امریکی والدین کی طرف سے کئے گئے تبصرے اور ان کی طرف سے ایسے المناک سانحات کی روک تھام کے لیے اچھے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ سانٹا فی سکول میں ہلاک ہونے والی ایک بچی کی والدہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس کی بیٹی کئی دنوں سے بتا رہی تھی کہ فلاں لڑکا اسے جنسی طور پر ہراساں اور پریشان کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی ماں نے بتایا کہ ایک روز اس کی بیٹی نے کلاس میں کھڑے ہو کر اس لڑکے کو کھری کھری سنا دیں جو بعد میں قاتل کے روپ میں سامنے آیا۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ امریکی ماں نے کہا کہ سکولوں میں قتل و غارت گری کے واقعات میں ویڈیو گیمز کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو اس طرح کے قتل عام کو گلیمر کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ایک امریکی والد نے یہ کہا کہ اس طرح کے واقعات کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے خدا کو (نعوذباللہ) امریکی سکولوں سے نکال باہر کیا ہے۔ ہمارے ہاں کے ماڈرن انگلش میڈیم سکولوں کو امریکی والدین کے ان فکر انگیز بیانات پر غور کرنا چاہیے اور ان کے تجربات سے سبق حاصل کرکے اپنی دینی و تہذیبی روایات کو اپنے تعلیمی اداروں سے دیس نکالا دینے کی بجائے انہیں سینے سے لگانا چاہیے۔ امریکہ ان سانحات کی روک تھام کے لیے اس تین نکاتی پروگرام پر سنجیدگی سے غور کرے پہلا نکتہ یہ ہے کہ کم از کم ہائی سکولوں کی حد تک مخلوط تعلیم کا خاتمہ، جزا و سزا کا موثر قانون جس میں سزائے موت بھی ہو اور آخری نکتہ بغیر لائسنس کے گن کے حصول پر پابندی۔ سانٹا فی کی ٹریجڈی کے بعد سبیکا کے سکول کے سوگوار ساتھیوں کا ایک ہی سلوگن تھا کہ اللہ کرے ایسی ٹریجڈی پھر کبھی نہ ہو۔ ہم بھی امریکی سکولوں کے لیے یہی دعا کرتے ہیں۔ اگر پاکستانی بیٹی سبیکا کی شہادت کے بعد امریکی بچوں کوپرامن تعلیم گاہیں میسر آ جائیں تو سبیکا کی طرف سے امریکی قوم کے لیے یہ انمول تحفہ ہوگا۔ ایک بیٹی کا باپ ہونے کی حیثیت سے ساری قوم کی طرف سے میری دعا یہ ہے کہ اللہ سبیکا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔