چند دن پہلے وفاقی وزیر اطلاعات نے اخبار نویسوں کو ایک افطار ڈنر دیا۔ اس میں انہوں نے آزادی صحافت کی موجودہ صورتحال پر اظہار افسوس والے فقرے کہے جو اخبارات میں نہیں چھپ سکے۔ بعض کالم نگاروں نے ان کے یہ فقرے نقل کئے ہیں‘ سیلف سنسر کی ذمہ داریوں کے تحت بہت محتاط انداز میں ۔ چلیے یہ بھی غنیمت ہے کہ بعض کالموں اور تجزیوں میں فی الحال کچھ نہ کچھ چھپ جاتاہے‘ آنے والے دنوں میں شاید یہ صورت بھی نہ رہے سوشل میڈیا میں البتہ کئی دنوں سے ’’احتجاج‘‘ جاری ہے اور صحافت کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ کس سے؟ یہ کچھ واضح ہے کچھ واضح نہیں ہے۔ سوویت یونین کے زمانے میں ایک لطیفہ بنا تھا۔ ایک روسی اور ایک امریکی کہیں آپس میں ملے۔ امریکی نے کہا‘ ہمارے ہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ روسی نے کہا‘ آزادی تو مجھے بھی حاصل ہے‘ میں بھی جہاں چاہوں کھڑے ہو کر امریکی صدر کو گالیاں دے سکتا ہوں۔ پاکستان میں بھی صحافت کو اسی قسم کی آزادی ’’حاصل‘ ہے آپ جہاں چاہیں جب چاہیں جتنی مقدار میں چاہیں نواز شریف کو گالیاں دے سکتے ہیں‘ انہیں اور ان کے حامیوں کو غدار اور نہ جانے کیا کیا قرار دے سکتے ہیں۔ کسی آمر نے کہا تھا آپ کو اظہار رائے کی آزادی کی مکمل ضمانت دیتا ہوں لیکن اظہار رائے کے بعد آپ کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ محترم عارف نظامی ماضی قریب تک یہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آزادی صحافت ہمیں کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی۔ ان کا مطلب تھا کہ یہ آزادی ہمیں اپنی جدوجہد سے اور ارتقائی عمل سے ملی ہے۔ بہرحال وہ پلیٹ جس میں آزادی صحافت رکھی تھی‘ چپکے سے لاپتہ ہو گئی ہے اور اب کسی کو پتہ نہیں وہ بازیاب کب ہو گی بھی یا نہیں اور وفورحیرت نے یہ عالم کر دیا ہے کہ کوئی بولنا تو دور کی بات‘ بولنے کے لیے لب ہلانے کو بھی تیار نہیں۔ سیلف سنسر کے ساتھ ساتھ سیلف کنٹرول بھی قابل دید و داد ہے کہ ع اب ضبط کریں کب تک منہ تک کو جگر آیا ٭٭٭٭٭ سیلف سنسر سے پہلے ہی سوشل میڈیا اپنی بہت زیادہ جگہ بنا چکا تھا۔ آنے والے دنوںمیں اس پر لوگوں کا انحصار بڑھتا جائے گا۔ سوشل میڈیا میں غلط خبریں بہت آتی ہیں لیکن ان کی پکڑ بھی فوراً ہو جاتی ہے۔ چند روز پہلے ایک ویڈیو وائرل کی گئی کہ ملتان میں عوام نے جاوید ہاشمی کے خلاف مظاہرہ کیا بلکہ ان پر حملہ کر دیا۔ یہ لوگ دو روز پہلے ان کے ایک بیان پر احتجاج کر رے تھے جو انہوں نے مقتدر طاقتوں کے خلاف دیا تھا لیکن دس منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ پتہ چلا۔ یہ ویڈیو چار سال پرانی ہے دھرنا کیخلاف بیان دینے پر تحریک انصاف کے لوگوں نے ان پر تشدد حملہ کیا تھا۔ یعنی سوشل میڈیا اگرچہ ’’ریگولیٹڈ‘‘ نہیں ہے لیکن اپنے خود کار نظام کے تحت یہ از خود نوٹس لینے کی اہمیت رکھتا ہے۔ موسمیاتی دبائو کے باعث ٹی وی چینلز نواز شریف کے جلسے ٹھیک نہیں دکھاتے۔ کچھ تو سرے سے بلیک آئوٹ کرتے ہیں‘ کچھ اسی طرح دکھاتے ہیں کہ تقریر رئیل ٹائم میں‘ حاضرین کی ویڈیو دو گھنٹے پہلے کی دکھا دیتے ہیں سوشل میڈیا پر جلسے کی سنگل فریم ویڈیو دیکھ کر حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے۔ دیکھیے انتخابات میں مثبت نتائج کے حصول کے لیے کوہ نداسوشل میڈیا سے اس ’’عذاب‘‘ کا کیا علاج کرتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم برسر اقتدار آ کر سب سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں گے۔ محترم‘ آپ چند ہفتے پہلے تک اچھے خاصے محب وطن تھے‘ یہ کیا ہوا کہ آپ کی باتوں سے ’’غداری‘‘ کی بو آنے لگی ہے لگتا ہے صحبت با فضل‘ اثرات عمرانی کو غیر موثر کرنے لگی ہے۔ ٭٭٭٭٭ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پورے کے پورے ہی پٹڑی سے اتر گئے اور کہا کہ وہ سندھ کی تقسیم یعنی اس میں سے نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات دھراتے ہوئے کہا کہ نئے صوبے کی بات کرنے والے لعنتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے بھی اخبار نویسوں سے گفتگو میں مراد علی شاہ کی تائید کی اور نئے صوبے کے حامیوں پر اپنے حصے کی لعنت بھیجی۔ لعنت بھیجنا شریعت کا مسئلہ ہے اور خاص ’’شرائط‘‘ کے تحت ہی کسی پر لعنت بھیجی جا سکتی ہے۔ کیا نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کوئی ’’غیر شرعی‘‘ بات ہے؟ پیپلز پارٹی پنجاب کو توڑنے کی بات کرتی ہے کس شریعت کے تحت وہ جائز اور یہ ’’لعنتی مطالبہ‘‘ ہے؟ بھٹو کے دور میں رسول بخش تالپور اور ممتاز بھٹو نے صوبائی حکمرانوں کے طور پر مہاجروں کا ذکر نفرت اور حقارت سے کیا اور انہیں ہڑتال کرنے کا چیلنج دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی شہری آبادی سے آئوٹ ہو گئی۔ اب وہ سندھ کی تقریباً نصف آبادی پر بالواسطہ لعنت بھیج رہے ہیں۔ ابھی کراچی صوبے کا مطالبہ صرف خواہش تک محدود ہے۔ اسے باہمی مصالحت اور حقوق دے کر خواہش تک محدود رکھا جا سکتا ہے لیکن شاید پیپلز پارٹی نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ الگ صوبے کی تحریک چلوا کر رہے گی۔ ٭٭٭٭٭ عراق میں ایران مخالف مقتدی صدر کی جماعت نے الیکشن میں اول پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ اگرچہ اس کی سیٹیں کل سیٹوں کا محض 20فیصد ہیں لیکن دوسرے ایران مخالف دھڑوں سے مل کر حکومت سازی کا امکان ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اسے بھی ٹرمپ کی کامیابیوں کے کھاتے میں ڈالا جائے گا حالانکہ مقتدی صدر امریکہ کے سخت مخالف ہیں۔ عراق پر حملے میں ایران کے فوجی امریکی فوجیوں سے مل کر ’’مخالفوں‘‘ کی بستیاں نذر آتش کر رہے تھے تو مقتدی صدر نے تب بھی اس ’’مسلم کشی‘‘ کی سخت مخالفت اور مذمت کی تھی۔ وہ سعودی عرب کے بھی اس لیے قریب ہیں کہ عراق کی مسلم اتحاد کی شناخت قائم رہے۔ بہرحال‘ ایران کے لیے یہ ایک اور بری خبر ہے۔