بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ انیسویں اجلاس میں پاکستان کے لئے عمران خان اور روس کے صدر پوٹن کی ملاقات کی اہمیت غالباً تنظیم کے اپنے اعلامیے سے بھی زیادہ ہوگی۔ روس پاکستان تعلقات جو ابتدا سے ہی سرد مہری کا شکار رہے پاکستان کے مکمل طور پہ امریکی کیمپ میں خیمہ زن ہونے کے بعد معاندانہ نوعیت اختیار کرگئے۔ ادھر بھارت سوویت روس کا اتحادی رہا اور روس پاکستان کے خلاف اس کی دامے درمے اور سخنے امداد کرتا رہا۔ حتی کہ ہماری تاریخ میں سانحہ سقوط ڈھاکہ کا ذلت آمیز موڑ آیا تو اس میں بھی روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کی انگلیوں کے نشان واضح طور پہ نظر آئے۔ کشیدگی اس وقت عروج پہ پہنچی جب روس نے افغانستان پہ حملہ کیااور پاکستان نے امریکی کیمپ میں ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔اس تفصیل میں جانا اس موقع پہ غیر ضروری ہے کہ افغانستان کے سلگتے میدان جنگ میں کس کس نے ہاتھ سینکے ۔اہم بات یہ تھی کہ سوویت روس افغانستان پہ لشکر کشی کا بوجھ نہ اٹھا سکا اور چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب ایک سپر پاور ذلت آمیز پسپائی کے بعد ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔21دسمبر 1991ء کو ماسکو ٹی وی نے اعلان کیا۔ صبح بخیر۔ اب سوویت یونین نہیں رہا۔ سوویت روس کے انہدام کے ساتھ ہی جو ریاستیں آزاد ہوئیں ان میں سے ایک کرغستان ہے جسکے دارالحکومت بشکیک میں جاری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد سوویت روس اور بھارت کے گٹھ جوڑ سے سن اکہتر میں دو نیم ہونے والے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اٹھائیس سال قبل انہدام کے بعد بچ رہنے والے روس کے صدر پوٹن سے ملاقات کریں گے ۔ تاریخ کا یہ اتفاق بھی عجیب ہے کہ افغانستان پہ یکے بعد دیگرے چڑھائی کرنے والی دونوں سپرپاورز ایک دوسرے کی حریف رہیں لیکن افغانستان ان کا مشترکہ ہدف رہا۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک افغانستان کی تزویراتی پوزیشن ہے۔ اس تمام کشاکش میں جیت صرف سرمائے کی ہوئی ہے ،ہاں افغانستان میں صورتحال مختلف ہے۔ وہاں کل بھی نظریہ فاتح رہا اور آج بھی طالبان دنیا بھر کی ٹیکنالوجی اور سرمائے کو جوتے کی نوک پہ رکھے اسے نچائے پھرتے ہیں۔ اب چونکہ حقیقت حال کچھ یوں بن گئی ہے کہ پاکستان امریکی تسلط اور ڈو مور سے بڑی حدتک آزاد ہوگیا ہے۔ اس کے لئے شکریہ ٹرمپ کہنا کوئی بعید از حقیقت بات نہ ہوگی جو دنیا بھر سے امریکی جنگیں لپیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ویسے بھی تیل کی تلاش میں عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور نیو ورلڈ آرڈر کو دنیا پہ مسلط کرنے کی ابتدا افغانستان سے کرنے کا کام ڈیموکریٹس نے کیا ہے۔ آ ج ایران اور امریکہ کشیدگی اور امریکہ شمالی کوریا کشیدگی ماضی میں امریکہ عراق اور امریکہ لیبیا کشیدگی سے کہیں زیادہ ہے لیکن ابھی تک امریکہ نے کوئی نیا محاذ کھولنے میں عجلت سے کام نہیں لیا۔ صدر ٹرمپ کی تمام جنگیں زبانی ہیں یا معاشی ناطقہ بندی تک محدود ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ایک خود امریکہ کی معاشی صورتحال ہے جو مخدوش ہورہی ہے اور دوسرا دنیا سے امریکی تھانیداری کا وہ اختتام ہے جو اسکرپٹ میں لکھا ہوا ہے۔صدر ٹرمپ کا آخری اقدام اسرائیل کو اس کی خواہش کے مطابق سرحدیں دلانا ہے اور وہ یہی سنجیدگی سے کررہے ہیں۔ چین ،ایران، شمالی کوریا، روس کو دھمکیاں اور ان پہ اقتصادی پابندیاں اور تجارتی جنگیں ان کا اقتصادی ہتھیار ہے جو کبھی بھی روایتی جنگ میں نہیں بدلے گا۔آج کا امریکہ یہ افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ اپنا نو دریافت شدہ تیل دنیا کو بیچنا چاہے گا تاکہ اگلی ایک صدی سکون سے نکال سکے۔ اس کے لئے اوپیک کو کسی نہ کسی طرح دباو میں رکھے گا اور وہ اس نے رکھا ہوا ہے۔ روس اس سارے معاملے میں پیدا ہونے والے خلا کو سرمائے اور اسلحے سے پر کر رہا ہے۔ مغرب بالخصوص جرمنی کے ساتھ اس کے توانائی کے منصوبے جاری ہیں۔ایران کا وہ اتحادی ہے ۔ بھارت کو اب تک سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے جس پہ اب امریکہ بازی لے جائے گا اور روس دس بلین ڈالر کے معاہدے پاکستان کے ساتھ کرے گا۔ایران امریکہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہے گا جس میں بڑا کردار خود ایران کا ہوگا جس نے حال ہی میں جاپان کی ثالثی کو مسترد کردیا ہے۔ اس پس منظر میں خلیج اومان میں امریکی ففتھ فلیٹ کے آئل ٹینکروں پہ تازہ ترین حملہ سمجھنا مشکل نہیں ہے ۔اس سے قبل فجیرہ پورٹ پہ حملہ بھی ہوچکا ہے۔ایسے واقعات امریکہ کے لئے کوئی بھی جنگ چھیڑنے کے لئے کافی ہوتے ہیں لیکن وہ اب تک اس سے گریزاں ہے البتہ ایسے ہر واقعہ کے بعد تیل کی قیمتوں میں پانچ سے چھ فیصد اضافہ ضرور ہوجاتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ ایسے مزید واقعات ہونگے جن سے اوپیک تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور امریکی تیل مارکیٹ میں آجائے گا۔ایسا ہونے سے قبل ضروری ہے کہ امریکہ کو ایک نئی جنگ میں الجھا دیا جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو جنگ عظیم کا خدشہ موجود ہے۔ اس وقت یہی ٹوٹتے بکھرتے بلاک اینٹی امریکہ بلاک بن جائیں گے۔ ان میں چین، روس بشمول بالٹک ریاستیں،ایران اور مغرب کے کچھ ممالک شامل ہونگے۔ پاکستان چین کی موجودگی میں غیر جانبدار نہیں رہ سکے گا۔ امریکہ یوں بھی اب گرتا ہوا ہاتھی ہے جو گرتا ہے تو چھوٹے جانور اور گھاس پھوس کچل جاتے ہیں۔ پاکستان کے لئے اس وقت مواقع کا جہان کھلا ہوا ہے۔ افغانستان میں وہ مرکزی حیثیت میں ہے۔سی پیک اس کے اندر سے گزر رہا ہے۔روس کو پاکستان کی ضرورت آنے والے وقت میں پڑے گی۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو اگلے چند سالوں میں چین کی طرح روس کے ساتھ بڑے معاہدے کرنے اور باہمی تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔پچھلے تین سال سے روس کا لہجہ پاکستان کے لئے نرم پڑ گیا ہے حتی کہ تاریخ میں پہلی بار دو سال قبل ہم نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرڈالی ہیں۔اب یہ عمران خان پہ منحصر ہے وہ ان حالات میں پیوٹن سے پاکستان کے لئے کیا حاصل کرسکتے ہیں۔