اس وقت عرب وعجم پوری ملت اسلامیہ نت نئے فتنوں میںگھری ہوئی ہے۔ لیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہم اسی تسفل اوربربادی کی اسی قعرمذلت میں پڑیں رہیں۔لاکھوں جانوں کانذرانہ اورعظیم اوربیش بہامالی قربانیوںکے بعدپاکستان بنا جوصرف اورصرف اسلام کے نام پرمعرض وجودمیں آیاورنہ ہندوسے ہماری کیاکدتھی ۔لیکن الگ مملکت بنانے والے جب عدم سدھارگئے توایک اسلامی نظریاتی مملکت بنانے کاخواب دھرے کادھرے رہ گیا ہم بدستورہندوانہ اورمغربانہ طرززندگی اختیارکرنے کی طرف مراجعت کرنے لگے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کاسواداعظم آج بھی قیام پاکستان کے مقاصدکے حصول کے لئے ترس رہاہے لیکن محض آرزووتمنارکھنے سے اسلامی فلاحی ریاست قائم نہیں ہوتی ۔اس کے لئے اپنے آپ کوبدلناہوتاہے اورپھراپنی قیادت کاانتخاب کرناہوتاہے کہ جومملکت کوصحیح معنوں میں فلاحی ریاست بن کردم لے گی ۔ہم ہمیشہ ان اللے تللوں کاانتخاب کرتے ہیں جوہم پرعذاب بن کراپناوقت گزارتے ہیں۔ پاکستان کے مسلم معاشرے میں اتھل پتھل پھیلانے اوراسے درہم برہم کرنے کے لئے دنیاکے پتہ نہیں کن کن علاقوں میں بہت سے ناپاک ، مہلک اورشرمناک منصوبے بنائے جارہے ہیں مگرشومئی قسمت ان منصوبوں کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پاکستان سے ہی ایکٹردستیاب ہوجاتے ہیں۔پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی دخل اندازی کے لئے دشمنوں کی جانب سے جس طرح جاسوسی جال پھیلایاجاتاہے اورداخلی سطح پرجاسوس بھرتی کرلئے جاتے ہیںپھرناپاک مقاصدکے حصول کی تگ ودوکی جاتی ہے عین اسی طرح اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کوپھلانگے کی کوششوں کے لئے اس ملک کے ہی لوگ میسرآجاتے ہیں جنہیں ملک ،دین اورایمان کے ساتھ کوئی سروکارنہیں ہوتاوہ ڈالرکے پجاری ہوتے ہیں انہیں خوب مست زندگی چاہئے ہوتی ہے جہاں ابلیس ہمہ وقت ان کے ہمرکاب ہو لیکن جس طرح ہماری افواج اورہمارے انٹیلی جنس ادارے مملکت کی جغرافیائی سرحدوں کی بھرپورمحافظت کرنے کئے لئے چوکنارہتے ہیں عین اسی طرح ہم سب کو، ہماری افواج ، ہمارے سراغرساں اداروں، ہمارے خواتین و حضرات کو ہمارے علماء کرام کو،ہمارے اساتذہ عظام کوملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاطت پرنہایت ہوشیاری سے کام لیکرہرطرف کڑی نگاہ رکھنی چاہیے۔ ملک میں کوئی بھی احتجاج،کوئی مارچ ،کوئی مظاہرہ ،کوئی اجتماع،کوئی جلسہ وجلوس ہومگروہ خالصتاََ ملک اورملت کے مفادمیں ہواس پرکوئی روک ٹوک نہیں ہوسکتی مگرجب ملک کے نظریے اوراسلامی تعلیمات کی دھجیاں بکھیرنے کے لئے مارچ کئے جارہے ہوں تومملکت کافرض ہے کہ ایسے مارچ کوقانوں کے آہنی ہاتھوں سے روکاجائے ۔ پچھلے سال مملکت پاکستان میں8مارچ کو ہونے والے عورت مارچ پر نظر دوڑاتیں تو ہم نے اس مارچ میںایسے غلیظ اورگھٹیانعرے سنے اورہاتھوں میں لئے ہوئے کتبوں پر پڑھے اوربینروں پرلکھی عبارتیں دیکھیں: جوہماری سوسائٹی اورہمارے معاشرے پرہونے والے حملوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ہمارے معاشرے پرحملہ آوروں کے وہ نعرے یہ تھے۔میں آوارہ میں بدچلن،شادی کے علاوہ اور بہت کام ہیں،مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے،آ کھانا ساتھ بنائیںاس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نعرے بازمحض چنددین بیزارآنٹیاںلگارہی تھیں لیکن دیکھنایہ ہے کہ ا س معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے لیکن کیا یہ تمام مسئلے پچاس فیصد عورتوں کو بھی درپیش ہیں ؟خدا را اپنی نسلوں کو تباہی سے بچائیں اور اسے بڑا سیریس لیں یہ ڈالروں پرپلنے والیاں یہاں پاکستان کی تہذیب کو تباہ کرنا چاہی ہیں ۔ اہل پاکستان کے لئے یہ وقت ہے خوابِ غفلت سے جاگنے کاکہ جونعرے اورجوبک بک اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ٹکرارہی ہو اہل اسلام کا خون کھولتا ہے۔سویا ضمیر جاگناچاہئے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کے بھی ہمارا خون نہیں کھولا، ہماری مردہ غیرت نہیں جاگی، ہمارے سوئے ضمیر بیدار نہیں ہوئے توپھرعذاب الٰہی کاانتظارکریں۔ہم آج مٹی کا ڈھیرہیں جوبنجرسے لائی گئی ہو۔ زرخیزمٹی ہوتے تووہ بڑے بڑے تن آور شجر پیدا کر کے سائباں تو مہیا کرتی ہے ، مگر ہمارے وجود کی مٹی بالکل مری کھپی اور بے جان ہے کہ کوئی دید ہ ور پیدا نہیں کر پا رہی جو سائبان بن کر اپنی نسل پر سایہ فگن ہو۔ ہمارے سیاسی بازیگربے غیرتی و بے حسی کی چادر اوڑھ چکے ہیں۔ ان کی مذہبی حمیت اور غیرت ِدینی دم توڑ چکی ہے ، انہیں اپنی ملت کے ساتھ ہونے والی کسی بھی اونچ نیچ پر کوئی دکھ و صدمہ نہیں پہنچتا۔ دشمن کو میر صادق اور میر جعفر بہت سستے داموں مل رہے ہیں۔جہاںبے ضمیر لیڈرہوں تو ملت کی بیداری کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ چمن کے مالی خود ہی چمن کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور اس کے تنوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ یادرکھیں!قوموںسے نصیحت اور عبرت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے قدرت ایسے ہی عذاب نازل کیا کرتی ہے۔ضروری نہیں کہ آسمان سے پتھر بر سیں یا زمین الٹ جائے اور خوفناک چنگھاڑ سنائی دے۔یہ عذاب کبھی تاتاریوں تو کبھی عیسائیوں، ہلاکو خان، چنگیز خاں ،تیمور خاںکے حملوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور اب امریکہ،ہنداوراسرا ئیل ، طاغوتی و سامراجی قوتوں کے تسلط کی شکل میںہم پر مسلط ہے۔ قدرت اسی طرح ایک غالب طاقت کو دوسری طاقت سے دفع کیا کرتی ہے اور سزا اور عقوبت کیلئے ظالم بادشاہوں کو مسلط کر دیتی ہے۔ آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ہمارے کردار یہود و نصاری سے بھی گئے گزرے ہیں۔