صدیوں پہلے کی بات ہے چین کو نصف درجن کے لگ بھگ سرکش ریاستوں کا سامنا تھا۔ خطرہ یہ تھا کہ یہ تمام ریاستیں ایک اتحاد بنا کر اس پر حملہ کرسکتی تھیں۔ مسلسل جنگوں سے مرکز کو مالیاتی دشوراریوں کا سامنا تھا، کسی طاقتور دشمن سے سامنا اسکی سلامتی کے لیے خطرنا ثابت ہوسکتا تھا۔ حربی مفکر سن تزو سے صلاح مانگی گئی تو اس نے کہا پہلی بات یہ ہے کہ جنگ ایک نازک کام ہے، کیونکہ یہ ریاست کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر حکمت عملی کامیاب نہ ہوئی تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اسکے برعکس، انسانی اور فطری عوامل کے بہترین استعمال کو یقینی بناکر طاقتور سے طاقتور مخالف کو بھی پچھاڑا جاسکتا ہے۔ باغی ریاستوں پر غلبہ پانے کے لیے سن تزو نے تین شرطیں رکھیں۔اول، سرکار اور عوام دونوں کا نصب العین ایک ہو۔ دوم، جنگ کا مقصد مکمل فتح ہو۔ سوم، جرنیل جنگ کو لڑنے سے پہلے جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایک معاملے پر اس عملی مثال دی، باقی بات بادشاہ اور دیگر عمال کو خو د بخود سمجھ آگئی۔ یہ معاملہ جنگجووں کی تربیت سے متعلق تھا کہ جب انہیں واضح اور مدلل حکم دے دیا جائے ، اس پر عمل انکا فرض بن جاتا ہے۔ سوال اٹھا کہ کیا خواتین کو بھی اس اصول کے مطابق تربیت دی جاسکتی ہے۔ سن تزو نے جواب دیا کہ ایسا ہوسکتا ہے بشرطیکہ تربیت کے اختتام تک کوئی ان کے معاملے میں دخل نہیں دے گا۔ تجربے کے لیے شاہی خاندان کی عورتیں ترتیب میں کھڑی کردی گئیں۔حربی مفکر نے انہیں بتایا کہ سیدھا کھڑا ہونے اور دائیں یا بائیں گھومنے کا کیا مطلب ہے۔ جب سب نے تسلیم کرلیا کہ وہ بات سمجھ گئی ہیں تو انہوں نے انہیں دائیں مڑنے کا حکم دیا ، خواتین اس حکم پر عمل کرنے کی بجائے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئیں اور ساتھ ہی درباری بھی۔ سن تزو نے انہیں پوری ترتیب سے، بات سمجھائی اور دوبارہ دائیں مڑنے کا حکم دیا۔ تب بھی یہی ہوا یعنی حکم ماننے کی بجائے وہ ہنسنے لگ گئیں۔ تیسری بار حکم عدولی ہوئی تو سن تزونے تلوار نکالی اور ملکہ کا سر قلم کردیا۔ خواتیں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، دربار پر سکوت چھا گیا۔ پھر ایک بارعب آواز ابھری ۔۔دائیں مڑ۔۔۔ خواتین کا دستہ نہایت سرعت کے ساتھ گھوم گیا۔ داد وتحسین غلغلے بلند ہوئے اور سن تزو کی جنگی حکمت عملی کوتسلیم کرلیا گیا۔ فوج کی نئی صف بندی اور تربیت کے عمل کے ساتھ ساتھ اس کی دیگر شرائط پر عمل شروع ہوگیا۔ بغاوتوں اور شورش پر قابو پالیا گیا اور چین پھر سے متحد ہوگیا۔ ان سے منسوب مشہور زمانہ کتاب، ’’آرٹ آف وار‘‘ میں سن تزو جنگ کے مقاصد ، فوجی تربیت ، مالی وسائل کے اہتمام اور فوجی قیادت کا انتخاب پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔ وہ شہروں، فصلوں اور جنگلات کو نذر آتش کرنے اور غیر ضروری قتل وغارت کے خلاف ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ حربی حکمت عملی کا مقصد دشمن میں جنگ لڑنے کے حوصلہ کو شکست دینا ہے۔ سن تزو زمینی ساخت، پانی کی دستیابی ، درجہ حرارت، ہواؤں کی سمت اور اپنی اور دشمن کی خوبیوں اور خامیوں کے ادراک جنگ کے نتائج کے لیے فیصلہ کن قرار دیتا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ آپ سن تزو کی حکمت عملی کے اپنے ملکی حالات پر اطلاق کا سوچیں، میں خود کو حقیقی سیاست تک ہی محدود رکھوں گا جو عوام اور ریاست کو اتحاد کی لڑی میں پروتی ہے۔ سیاست ہی سن تزو کی جنگی حکمت کی پہلی کڑی ہے جو یہ ممکن بناتی ہے کہ عوام اور ریاست کا نصب العین ایک ہو۔ کیسے؟ اس کا جواب ہے عدل جس میں اولین ترجیح ظلم کا خاتمہ ہے۔ عوام پر محصولات کا اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے کہ انکی کمر ہی ٹوٹ جائے۔ ملک میں ترقی کا عمل ہو تو ایسے کہ اس کے ثمرات چند خاندانوں تک محدود نہ رہیں بلکہ عام لوگوں تک بھی پہنچ سکیں۔ عدل کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ کوئی کسی کا حق نہ مار سکے۔ عدل کا معیا ر یہ ہے کہ ملک کے کسی کونے میں صدائے احتجاج تو درکنا ر،سسکیاں اور آہیں تک سنائی نہ دیں۔ ریاست مظلوم کے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے اس کی داد رسی کو پہنچے تو ہی اسکی سلامتی یقینی بن پاتی ہے۔عدل ہی سے معاشرتی اور معاشی استحکام کی راہیں کھلتی ہیں۔ سیاست لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے ، انہیں تنازعات کی بھٹی سے نکالتی ہے اور مل جل کر رہنے کی تربیت دیتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست سفاک، فریبی اور ڈھونگی لوگوں کے نرغے میں پھنس گئی ہے جنہوں نے اپنے طبقاتی مفادات کے حصول کے لیے ریاست کی جڑوں تک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ عدل ریاست کو اسکے باشندوں میں عزت نفس اور خود داری میں اضافہ کرکے مضبوط بناتا ہے، لیکن جہاں وسائل کی تقسیم اس طرح ہو کہ لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کے ہی لالے پڑجائیں، تو ایسے میں ووٹ کا حق یا اسکی عزت بے معنی ہے۔ لوگ صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہوں اور حکمران محلات، ملیں اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں جتے ہوں تو عوام اور ریاست میں خلیج بڑھتی جاتی ہے۔ عوام اور ریاست کے درمیان میں اعتماد کا رشتہ کمزور پڑنے کا سیدھا سادھا مطلب انتشار اور خانہ جنگی کے حالات ہیں اور ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ خطرے کی گھنٹی کب کی بجی ہوئی ہے۔ اشرافیائی سیاست کا حتمی نتیجہ ریاست کی بقا اور سلامتی کو خطرات کے سو کچھ نہیں۔ پچھلے دس سالہ میثاقی سیاست کے نتائج سامنے ہیں۔ اس اشرافیہ نے سیاسی بھائی چارہ قائم کرکے قومی وسائل کو آپس میں ہی بانٹا ، احتساب کے نظام کو منجمد کیا اورریاست کے لوگوں سے رابطے کے آئینی انتظامات، مقامی حکومتوں، کو اپاہج کرکے رکھ دیا۔ ریاست استعماری دور کی پروردہ اشرافیہ کا اب مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ یہ اپنی ناک کے آگے کچھ نہیں دیکھ سکتے ، اس کا فائدہ لوگوں کو تقسیم کرنے میں پوشیدہ ہے نہ کہ ان میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرنے میں۔ ریاست کے بقا کو یقینی بنانے کا سوال ان کے دماغ میں فطری طور پر جگہ ہی نہیں پاسکتا ، اس حوالے سے سوچنے اور کچھ کرنے کی باری تو بعد میں آئیگی۔ ریاست اپنے وجود کی بقا کے لیے عشق مانگتی ہے جو ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ عشق تو عام شہری سے متعلق ہے جسے ماں جیسی ریاست چاہیے جو اسے انسان ہونے کا احساس دلاسکے۔ قدرتی آفات ، بھوک اور بیماری کی صورت میں اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا سکے۔ ایسی سیاست جو لوگوں میں عشق پیدا کرے ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ لیکن یہ سیاست ریاست کی بنیادی ضرورت ہے ، کیونکہ اس کے بغیر اسکی بقا ممکن نہیں۔ اشرافیہ نے جو ملک اور اسکے اداروں کے خلاف جنگ شروع کی ہے، اس سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ریاست کو عوام کا دل جیتنے کے لیے جمہوریت کے نام پر فریب اور ڈھونگ رچانے والوں کے حوصلوں کو شکست دینا ہوگی، مکمل اور فیصلہ کن شکست۔