خاکہ نگاری ادب کی ایک باکمال صنف ہے۔ ادب کسی بھی زبان میں ہو خاکہ نگاری اپنے قاری کو دیکھنے اور سوچنے کے نئے زاویئے فراہم کرتی ہے۔ 1947ء کے بمبئی میں دیویندر ستیارتھی … ساحر کا خاکہ لکھ رہا تھا۔ عصمت چغتائی اپنے قلم کی آنکھ سے منٹو کو دیکھ رہی تھی۔ منٹو، کرشن چندر اور باری علیگ کو اپنے تخیل کی آنکھ سے پرکھ رہا تھا۔ ان ہی دنوں مشہور شاعر اور خوبصورت فلمی گیتوں کے خالق کیفی اعظمی نے بھی ساحر کی شخصیت پر لکھا اوربہت خوب لکھا۔ ان دونوں رقیب دوستوں کی کہانی پھر سہی۔ بس یاد آرہے ہیں بہت سے قلم کار اور ان کے قلم سے لکھے گئے خاکے۔ منٹو کے گنجے فرشتے، اے حمید کے چاند چہرے، عطاء الحق قاسی کے مزید گنجے فرشتے اور ممتا زمفتی کا اوکھے لوگ۔ خالد حسن بیوروکریسی چھوڑ کر بھٹو کے پریس سیکرٹری بنے اور پھر وادی صحافت میں سفر گردی کرتے رہے۔ اب امریکہ میں دفن ہیں۔ وہ جب جب جہاں جہاں لکھتے رہے ہم انہیں فالو کرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، نور جہاں اور کے ایچ خورشید کے خاکے ان کی کتاب ’’سکور کارڈ‘‘ میں ہیں اور ایسے خاکے دوبارہ پڑھنے کو کم ملے۔ آپ پڑھتے ہیں اور کھو جاتے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ راجہ انور نے کیا اور جب ڈاکٹر مجاہد کامران نے ان سے ملوایا تو میں ان کے اس ترجمے کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔ اس کتاب کا نام تھا ’’مقابل ہے آئینہ‘‘۔ جتنی خوبرو خالد حسن کی انگریزی تھی اتنی ہی خوبصورت راجہ انور کی ٹرانسلیشن ہے۔ آج ایسی ہی ایک کتاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جسے خریدا، پڑھا اور بار بار پڑھتا چلا گیا۔ اس کتاب میں پرانے لاہور میں اس کے ادیبوں کو سمو دیا گیا کہ ایک ناسٹلجیا ہے، اس کا فسوں ہے اور فسوں کی گرفت ہے۔ لاہور کا ذکر وہ یوں شروع کرتے ہیں: ’’میں دادا کی آخری رسومات کے لیے 1942ء میں پہلی بار لاہور گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بہت سے لوگ موت کے یقینی ہونے پر ایمان رکھتے تھے اور اپنی زندگی میں ہنسی خوشی اپنے آخری لمحات کا خود انتظام کرتے تھے‘‘۔ لاہور کے اہل قلم کا ذکر وہ فیض احمد فیض سے شروع کرتے ہیں۔ اس ذکر میں وہ ایسے ایسے نام لیتے ہیں کہ بندہ جہانِ حیرت میں ڈوب جائے۔ فیض صاحب اپنے دشمنوں کو بھی برا نہیں کہتے تھے مگر جب ڈائریکٹر تعلقات عامہ جمیل الزماں کے مرنے کی خبر سنائی گئی تو بولے ’’بڑا پاجی تھا‘‘۔ سعادت حسن منٹو کے خاکے کا عنوان ہے ’’گواہ سست‘‘۔ اکمل علیمی منٹو پر اپنے ایک پرانے خاکے کی لائن لکھتے ہیں ’’18 جنوری 1955ئ، اردو ادب کی تاریخ کا ایک غم انگیز دن ہے۔ اس روز ہمارے سماج کے مہیب دیوئوں سے لڑنے والا نحیف و نزار منٹو موت کے راکھشس سے شکست کھا گیا۔ لوگ دبی دبی زبان سے کہہ رہے تھے … ایک جینئس مر گیا… ایک مجاہد چل بسا … بیسویں صدی کا مقبول عوامی ادیب انتقال کر گیا۔ اردو افسانے کی موت ہوگئی۔ منٹو کی اپنی زندگی اس کی تحریروں سے زیادہ دل دوز ہے۔ اس کی زندگی کا ایک لمحہ ایک عظیم ناول کے ابواب کا روپ دھا رسکتا ہے۔ وہ بی اے تھے مگر مغربی اور مشرقی علوم پر عبور رکھتے تھے۔ منٹو جدید اصلاح میں ایک سوشل سائنٹسٹ تھے‘‘۔ استاد امن پر جو خاکہ لکھا گیا اس کا عنوان ہے ’’پاکستان دیاں موجاں ای موجاں‘‘۔ اسی شعر کا اگلا مصرعہ پتہ نہیں حسب حال ہے کہ نہیں مگر کچھ اس طرح سے ہے ’’چاروں پاسے فوجاں ای فوجاں‘‘۔ احمد ندیم قاسمی، علیمی صاحب کا مہربان سلطانہ ڈاکو ہے۔ قاسمی صاحب روزنامہ امروز کے ایڈیٹر تھے اور اکمل علیمی ایک رپورٹر۔ 1958ء کے مارشل لاء نے یہ رشتہ توڑ دیا۔ ان کے مطابق قاسمی صاحب کو لطیفہ بنانے اور لطیفہ سنانے میں کمال حاصل تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چراغ حسن حسرت کے بعد اخبار کا فکاہیہ کالم ’’حرف و حکایت‘‘ قاسمی صاحب ہی لکھا کرتے تھے۔ قاسمی صاحب کی وفات پر علیمی صاحب اور بالی ووڈ کے گلزار صاحب بہت دیر تک اپنا مشترک دکھ شیئر کرتے رہے۔ گلزار صاحب انہیں اپنا ادبی بابا کہا کرتے تھے۔ طرح دار شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم کے بھائی دیو سماج روڈ پر ایک تنور پر کلچے لگا کر فروخت کرتے تھے۔ صوفی صاحب خود گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی پڑھاتے تھے۔ صوفی صاحب بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتے تھے۔ ان ہی کہانیوں میں ایک کردار ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ بچوں میں بہت مقبول تھا۔ پھر عبدالحمید عدم کا ذکر آتا ہے جو اے جی آفس لاہور میں ایک ذمہ دار پوسٹ پر افسر تھے۔ دن کو دفتر، رات کو مے نوشی اور پھر اس بازار میں۔ احسان دانش کی شاعری، مزدوری، مزاح اور انسان دوستی باکمال تھی۔ سیف الدین سیف کی فلمی کہانیاں، خوبصورت شاعری، فلمی نغمے اور ان کی قبر پر لکھی ہوئی ان کی نظم۔ ساغر صدیقی کی جبر مسلسل جیسی زندگی، ان کی فلمی شاعری اور اس کا ناجائز استحصال۔ اے حمید کی خوبصورت یادیں، اور مہکتی باتیں۔ ہم نے ہمیشہ خالد حسن کو ان کی تحریروں کے آئینے میںاکمل علیمی صاحب اور ان کا جنم جنم کا ساتھ تھا۔ دل چاہتا ہے سارا خاکہ ہی کالم کا حصہ بنادوں۔ منیر نیازی کے خاکے کا عنوان ہے ’’عادت ہی بنالی ہے‘‘ اور پھر منیر کے اس شعر سے خاکے کی ابتدا ہوتی ہے۔ میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد پر مجھے کمزور تر اس ملک میں اس نے کیا یہ صرف خاکے نہیں پاکستانی سوسائٹی کو دیکھنے کے نئے زاویئے بھی ہیں۔ ادبی، معاشرتی اور صحافتی زاویئے۔ ایک منفرد تاریخی نہج دینے والے خاکے۔ ہر دیکھنے والا کا اپنا زاویہ ہوتا ہے۔ اچھی تحریر آپ کو دیکھنے کے لیے نئے Lens دیتی ہے۔ بڑے لوگ، بڑی شخصیات تاریخ کے شیلف میں ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ اچھے قلم کار ہمیں ان کی نئی پرتیں دکھاتے ہیں۔ نئی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ ان آشنائیوں سے شناسائی کے لیے اکمل علیمی صاحب کا شکریہ… اس بات پر بھی کہ ان کی وجہ سے ہم پرانے لاہور کی خوبصورتی کو انجوائے کرسکے۔ حقیقت نہ سہی … خیال ہی سہی!!!