پاکستان کے معتبر انگریزی اخبار کے میٹرو پیج پر چھ کالمی تصویر کے ساتھ یہ کیپشن لگا تھا ’’یہ تصویر 12جون2014کی ہے جب پہلی بار لندن میں منی لانڈرنگ کے الزام میں بانی متحدہ کی گرفتاری کی خبر آئی تو شہر کی مرکزی شاہراہ فیصل ہُو کا عالم پیش کر رہی تھی۔۔۔اور صرف تین سال بعد 11جون کی صبح جب بانی متحدہ کی گرفتاری کی خبر آئی تو اسی شاہراہ پر ٹریفک بمپر ٹو بمپر چل رہی تھی‘‘۔جلاؤ گھیراؤ تو دور کی بات کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی ۔محاورے کی زبان میں ان تین برسوں میں پلوں کے نیچے سے پانی نہیں ایک سیلا ب بہہ گیا۔جس میں سندھ کے شہری علاقوں پر تین دہائی تک راج کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ ملبے سمیت ہی نہیں بہہ گئی بلکہ اس شہر پر راج کرنے والا بے تاج بادشاہ بھی آج پاکستانی سیاست کا گم نام آدمی ہے۔مگر یہ بات بھی حیران کن حد تک دلچسپ ہے کہ جس اسکرین پر بانی متحدہ کا نام اور چہرہ سال بھر سے اوپر شجرِ ممنوعہ تھا۔وہ گم نام شخص 11جون کو حمزہ شریف،آصف زرداری کی ہنگامہ خیز گرفتاری کی خبروں سے زیادہ بڑی بریکنگ نیوز بن گیا۔اپنے چینل پرخود میں ’’دہاڑی‘‘لگانے میں مصروف تھا ۔الطاف کا نام با ربار لینے کے باوجوداسلام آباد سے کوئی ایڈوائس تو نہیں آئی ۔یہ بات بہر حال دلچسپ ہے کہ جس زور شور سے بانی متحدہ کی گرفتاری کی خبر اسکرینوں پر چلی۔24گھنٹے بعد اُن کی رہائی کی خبر اخباری زبان میں آخری صفحے کی سنگل کالم خبر بن گئی۔مگر ساتھ ہی لندن میں الطاف کی گرفتاری اور رہائی اپنے پیچھے یہ سوال بھی چھوڑ گئی کہ کیا لندن میں 29سال سے بیٹھے بانی ِ متحدہ قومی موومنٹ اب بھی اتنے relevantہیں کہ ۔ وہ مستقبل میں بھی کوئی ایسی ’’خبر ‘‘بن جائیں جو پاکستانی سیاست میں ماضی کی طرح’’ بھونچالی‘‘کا سبب بن جائے۔بانیِ متحدہ قومی موومنٹ کا ذکر آئے تو پھر سندھ کی شہری سیاست کا وہ باب تو کھولنا پڑے گا ہی کہ یہ برس دو برس ایک تنظیم اوراس کے کارکنوں کا قصہ نہیں۔ بلکہ دہائیوں پر پھیلی آگ و خون کی ایک داستان ِ خونچکاں ہے۔ جس نے سب سے زیادہ اپنی ہی قوم کو نقصان پہنچایا۔مہاجر اور پھر مہاجر قومی موومنٹ کے بارے میں قطعی طور پر یہ کہا جائیگا کہ He came, he saw and he won. اسّی کی دہائی کے آغاز میں جن نوجوانوں کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن یعنی APMSO کے نام سے کراچی یونیورسٹی میں ایک تنظیم بنائی جو مہینوں میں کراچی بلکہ سندھ کے مہاجر طلبہ کی نمائندہ تنظیم بن گئی۔ اور پھر جب نوجوانوں کو کراچی یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلبہ نے بزور ڈنڈا باہر نکالا تو نہ صرف یہ مہاجر قومی موومنٹ بن گئی بلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں سندھ کے دونوں بڑے شہروں یعنی کراچی اور حیدرآباد کی میونسپل کارپوریشنوں کی میئر شپ پر مقبولیت کی ساری حدوں کو پار کر جانے والے الطاف حسین کے ’’دو مہرے‘‘ ہی بیٹھے۔ تین دہائی پہلے تو ’’مہرے‘‘ ہی کہوں گا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا میئر ایک 23 سالہ نوجوان ڈاکٹر فاروق ستار اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر کا میئر ایک نسبتاً گمنام وکیل آفتاب شیخ۔ اور پھر جب جنرل ضیاء الحق کی رحلت کے بعد وطنِ عزیز میں 11 سال بعد قومی انتخابات ہوئے تو مہاجر قومی موومنٹ دسمبر 1988 کے انتخابات میں سندھ میں دوسری اور قومی سطح پر تیسری بڑی قوت بن کر اُبھری۔ اپنی بے پناہ مقبولیت کے سبب پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر تو اُبھری مگر حکومت بنانے کے لئیے آخر کار پارٹی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو کراچی کی نواحی بستی عزیز آباد کے 120 گز کے مکان پر جانا پڑا جہاں بانی ایم کیو ایم نے اپنی بہن بی بی بے نظیر بھٹو کو عالمِ اسلام کی پہلی وزیر اعظم بننے کی مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ 52 نکات بھی تھما دئیے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو جس جوش و خروش سے وزیر اعظم بنانے کے لیے ایم کیو ایم نے ساتھ دیا تھا وہیں اس نے 24 ماہ بعد اسے گرانے میں بھی سب سے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالا۔ اور پھر اُن کے بد ترین مخالف میاں نواز شریف کے سر پہ وزارتِ عظمیٰ کا تاج رکھنے میں اتنے ہی بلکہ اُس سے زیادہ بڑھ کر جوش و خروش سے اپنا وزن بھی ڈالا۔ یوں نوّے کی دہائی میں متحدہ قومی موومنٹ ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن چکی تھی جو جس پلڑے میں وزن ڈالتی وہ بھاری ہو جاتا اور دوسرا خالی خاک چاٹ رہا ہوتا۔ یقیناً قائد اعظم کے بعد بھٹو صاحب جیسا مقبول عوامی قائد اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پیدا نہیں ہوا مگر جو شہرت اور طاقت ،متحدہ کے بانی کو ملی اس کی مثال نہ پہلے وطنِ عزیز کی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ شاید آئندہ کسی کو نصیب ہو۔ کہتے ہیں اور بہرحال جس کے مستند شواہد نہیں ملتے کہ جنہوں نے الطاف حسین اور اُن کی تنظیم کو بنایا ’’اُنہی‘‘ کے لئیے وہ ایک خطرہ بن گئے جس کے بعد اُن کے پاس ’’فوجی آپریشن‘‘ ہی ایک ہتھیار رہ گیا تھا۔ الطاف اس 1992ء کے آپریشن سے پہلے ہی ملک چھوڑ گئے مگر لندن میں بیٹھ کر بھی سندھ کے شہری عوام ان کی مٹھی میں تھے۔ 2002 - 2008ء بلکہ 2013ء تک سندھ کے شہری علاقوں کی ایک ہی نمائندہ جماعت تھی مگر یہ مئی 2013ء کے الیکشن ہی تھے جس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں دراڑیں پڑنی شروع ہوئیں اور پھر جس کے بعد ہی برسوں سے ’’الطاف کی زبان اور ہاتھوں‘‘ سے مسلسل مار کھانے والوں نے سرگوشیوں میں کہنا شروع کر دیا تھا Enough is Enough۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں میں جہاں اپنی ’’قیادت‘‘ کو دیوتا کا درجہ دے دیا جاتاہے وہیں جب اس ’’دیوتا‘‘ کے خلاف بغاوت ہوتی ہے تو اس میں بھی تمام اخلاقی حدیں پار ہو جاتی ہیں۔ پاک سر زمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال اور اُن کے ساتھیوں نے مارچ 2016ء میں جو بات بلند اور دبنگ انداز میں الطاف حسین کے خلاف کی وہی ذرا دھیمے اور نرم لہجے میں مرنجا مرنج فاروق ستار کے منہ سے بھی تین دہائی بعد جھڑنا شروع ہوئی۔ متحدہ قومی موومنٹ اور اُس کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے ایک زمانہ تھا ’’پر جلتے‘‘ تھے، ابھی بھی اس کی گنجلک، گھمبیر اور خونی تاریخ کے اوراق اُلٹنا اتنا آسان نہیں کہ سندھ کے شہری علاقوں پر تین دہائی تک راج کرنے والی جماعت کبھی ایک Open یعنی کھُلی سیاسی جماعت نہیں رہی۔مگر آج جب یہ تین بلکہ چار دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور اس کے دیو مالائی قائد بے دست و پا لندن میں بیٹھے ہیں۔۔۔ تو بہر حال اس کے ماضی ،حال اور مستقبل پر گفتگو کرنا اب اتنا مشکل نہیں رہا۔ (جاری ہے )