’’کوئی پوچھے تو کہنا خان آیا تھا‘‘ … بظاہر یہ ایک فلمی ڈائیلاگ لگتا ہے ، لیکن درحقیقت ہماری موجودہ سیاسی تاریخ پر مرتب ہوتی ایک نئی کتاب ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ کو ووٹ دینے پر پچھتاوے کا اظہار زبان زدِ عام ہوتا جا رہا ہے۔جناب وزیراعظم ! آپ کہتے تھے ، تین ماہ تک گھبرانا نہیں ، اب تو لوگ اتنا پریشان ہو چکے ہیں کہ بات گھبراہٹ سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ آئی ایم ایف کا سہارا گذشتہ حکومتیں بھی لیتی رہی ہیں لیکن کبھی حالات اس نہج پر نہیں پہنچے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔ سابقہ حکومتوں پر آئی ایم ایف کا پریشر ضرور تھا لیکن انہوں نے وہ پریشر کبھی عوام پر منتقل نہیں کیا تھا ۔ آج جس بند گلی میں آپ کی قیادت میں ہم داخل ہو رہے ہیں ، یہاں آپ کے فیصلوں کے نتیجے میں بے روزگاری ، بے اطمینانی ، غربت ، افراتفری ، خودکشیوں اور گداگروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا ، احساسِ محرومی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھے گا۔ سٹریم کرائمز میں اضافہ ہوگا ۔ آپ قوم کی پریشانیاں دور کرنے کا عزم لیکر آئے تھے … لیکن یہ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں ؟ (محمد نورالہدیٰ)