خیال زلف دوتامیں ‘نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل‘ اب لکیر ہٹا کر صادق سنجرانی کی شکست کا جن سیانوں کو یقین تھا‘ وہ اپنی عقل کا ماتم کرنے کے بجائے ہارس ٹریڈنگ‘ جمہوری اقدار کی پامالی اورضمیر فروشی کی لکیر پیٹ رہے ہیں۔ جس روز اپوزیشن نے میاں نواز شریف کے مشورے پر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینٹ بنانے کا فیصلہ کیا ‘پاکستانی سیاست کے مدوجزر اور فیصلہ سازی کے مراکز کی سوچ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے ہر ذی شعور کو اندازہ ہو گیا کہ صادق سنجرانی قائم و دائم ہیں۔ ویسے تو میاں نواز شریف کی شہرت یہ ہے کہ وہ کونسلر کا ٹکٹ بھی اپنے خاندان اور قریبی حلقہ احباب سے باہر کسی شخص کواس وقت دیتے ہیں جب جیت کا امکان صفر ہو ‘یہ تو چیئرمین سینٹ کا اعلیٰ منصب تھا جو قائم مقام صدر بھی ہوتا ہے۔ سعیدالزماں صدیقی‘ راجہ ظفر الحق اور حاصل بزنجو کا مصرف یہی تھا اور ہے کہ کسی نشست پر ہارنا مقصود ہو تو انہیں امیدوار بنا دیا جائے‘ لیکن حاصل بزنجو کو امیدوار بنانے کا صرف یہی مقصد نہ تھا نجی محفلوں میں ’’پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ ‘‘کا راگ الاپنے والے سیاستدان کو سامنے لا کر خطے میں قومی سلامتی اور دفاع کی جنگ لڑنے والی عسکری قوت کو باور کرایا گیا کہ اگر شریف خاندان اور زرداری خاندان کو ریلیف نہ ملا اور احتساب کا شکنجہ نرم نہ ہوا تو ہم ان قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونے میں باک محسوس نہیں کریں گے جن کے آبائواجداد قیام پاکستان کے حق میں نہ تھے اور جو فوج اورآئی ایس آئی کو سرعام بُرا بھلا کہنے کے عادی ہیں۔ حاصل بزنجو کی ہار یقینی تھی اور سنجرانی کی جیت نوشتہ دیوار‘ مگر زمینی حقائق سے ناواقف اور دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچنے والے سیاستدان اور دانشور دھوکہ کھا گئے‘ اب پریشان ‘جمہوریت کی بے قدری کا رونا رو رہے ہیں۔ قیام پاکستان کی مخالفت میں عبدالغفار خان‘ عبدالصمد اچکزئی اور غوث بزنجو کے علاوہ کانگریسی ملائوں کے کردار سے واقف مسلم لیگی ہوں یا پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن‘ عبدالصمد اچکزئی‘ اسفند یار ولی‘ حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمن کے بارے میںکبھی حسن ظن کا شکار نہیں ہوئے‘ کجا کہ وہ اپنی قیادت کی مجبوریوں کے تحت اپنا قیمتی ووٹ ان پر ضائع کریں۔ جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے قوم پرستوں کی پاکستان سے نفرت اور بھارت و افغانستان سے نقد وصولی کا ذکر تفصیل سے کیا ہے اور تمام ارکان پارلیمنٹ اتنے ان پڑھ و کم عقل نہیں کہ کسی کو علم ہی نہ ہو۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں عسکری پس منظر رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ بھی کسی ایسے شخص کو بھلا کیوں ووٹ دیں گے جس کو الیکشن سے دو دن قبل ارکان سینٹ پر دبائو نظر آتا ہے نہ خریدوفروخت کا شائبہ۔ حامد میر کے پروگرام میں وہ برملا اظہار بھی کرتا ہے مگر جونہی شکست سے دوچار ہوتا ہے الزام آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر لگا کر دلی بغض و عناد کو عیاں کر دیتا ہے ۔ہمارے عسکری اداروں سے آج کل سب سے زیادہ عداوت کس کو ہے اور کیوں؟ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ جن موقع شناس اور حقیقت پسند ارکان سینٹ کو اندازہ ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو نے اپنی کم عقلی‘ ضد‘ ہٹ دھرمی اور ناعاقبت اندیشی سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل مخدوش کر دیا ہے اور دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کا مقدر اب نیب‘ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کی پیشیاں‘ گرفتاریاں اور سزائیں ہیں‘ انہیں چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکمران جماعت اور سنجرانی کے سرپرستوں سے تعلقات بہتر بنانے اور مستقبل میں سینٹ‘ قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے حصول کی یقین دہانی حاصل کرنے کا موقع ملا ہے تو وہ اسے ضائع کیوں کریں؟۔ ایک ایسے شخص کو ووٹ کیوں دیںجو اُصول پسند اور ایمانداراتنا ہے کہ 1990ء میں بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لئے مال مفت دل بے رحم کے اصول کے تحت نقد رقوم بانٹی گئیں تو میاں نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کی طرح حاصل بزنجو نے بھی پانچ لاکھ روپے نقد وصول کئے اور آج تک انہیں سیاسی حکمرانوں کی لوٹ مار بُری لگی نہ ہر الیکشن میں ضمیروں کی خریدوفروخت اور نہ جرنیلوں سے مل کر اقتدار حاصل کرنے کی غیر جمہوری کدوکاوش۔ پاکستان اس وقت کسی قسم کی سیاسی مہم جوئی کا متحمل نہیں۔ معاشی بگاڑ کو سدھارنے اور خطے میں قیام امن کے لئے موجودہ سیاسی ڈھانچے اور سیاسی و عسکری قیادت میں تال میل کے علاوہ پائیدار تسلسل قومی ضرورت ہے جس کا احساس و ادراک اگر میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور ان کے جہاندیدہ ‘گرم و سرد چشیدہ سیاستدانوں کو نہیں اور وہ مولانا فضل الرحمن کی چرب زبانی اور مریم نواز و بلاول کی بچگانہ خواہشات کے آگے سپر انداز ہو ئے تو قصور کس کا ہے؟ اس وقت ملک میں اتھل پتھل بھارت کے سواکس کی خواہش ہو سکتی ؟بھارت ٹرمپ کے تازہ بیانات سے مضطرب اور پاکستان کی جارحانہ سفارت کاری پر مشتعل ہے۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدیں ایک بار پھر گرم ہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارت بدترین دہشت گردی کا مرتکب ہے اور کنٹرول لائن پر اس نے کلسٹر بم برسا دیے ہیں‘ کشمیری قیادت قیدو و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے لئے بے تحاشہ قتل و غارت کے علاوہ بھارت آئینی تحفظ ختم کرنے کے درپے ہے مگر اپوزیشن ‘ فوج اور آئی ایس آئی کو نیچا دکھانے اور عمران خان سے 2018ء کی انتخابی شکست کا بدلہ چکانے کے لئے چیئرمین سینٹ کے منصب پر ایک ایسے شخص کو بٹھانے پر مُصر تھی جس نے آج تک بلوچستان میں بھارتی مداخلت کی مذمت کی نہ افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کی فوجی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنے کی توفیق ہوئی البتہ پاکستان اور اس کی فوج پر جارحانہ تنقید اس کا وظیفہ ہے۔ اپوزیشن اس غلط فہمی کا شکار ہوئی کہ مسلسل منفی پروپیگنڈے اور فوج کے خلاف ابلاغی مہم سے وہ حکومت اور خلائی مخلوق کے مابین فاصلہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے‘ عمران خان کی ایک سالہ کارکردگی واقعی اتنی بُری ہے کہ فوجی قیادت بھی اس سے نالاں ہے اور صادق سنجرانی کی آڑ میں عمران خان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی اس کی حکمت عملی پر راولپنڈی کا ردعمل خاموش تماشائی کا ہو گا۔ ہمارے بعض تجزیہ کار اوردانشوردوست بھی اپوزیشن کی نیب زدہ لیڈر شپ کو گمراہ کرنے میں پیش پیش تھے۔ وہ مریم نواز شریف کی ریلیوں اور جلسوں کے علاوہ انٹ شنٹ ٹویٹس سے جتنے خود مرعوب تھے اتنا ہی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھ رہے تھے۔ دوسروں کا تو مجھے علم نہیں مولانا فضل الرحمن کو فاٹا کے بعض سینیٹرز نے یہ تاثر دیا کہ آبپارہ میں عمران خان کے خلاف کھچڑی پک چکی ہے اور جونہی وہ پیش قدمی کریں گے حکومت کی بوسیدہ عمارت دھڑم سے نیچے آ گرے گی۔ آصف علی زرداری کو بذریعہ خورشید شاہ اور میاں نواز شریف کو بوسیلہ سردار ایاز صادق پہلے مرحلے میں چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور دوسرے مرحلے میں لانگ مارچ یعنی عمران حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر پر قائل مولانا نے کیا مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ مسلم لیگی سینیٹر ہوں یا پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ وہ سارے کے سارے اتنے بھولے نہیں کہ شریف خاندان‘ زرداری خاندان اور مولانا فضل الرحمن کی مال بچائو مہم کا ایندھن بن کر اپنے سیاسی مستقبل کودائو پر لگا دیں‘ سو انہوں نے وہی سوچا جو ہمارے عملیت پسند سیاستدان سوچنے کے عادی ہیں۔ویسے بھی جب آئین‘ قانون اور رولز آف بزنس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کو خفیہ رائے شماری میں اپنے ذہن و ضمیر اور منشا کے مطابق ووٹ دینے کا حق حاصل ہے تو وہ قیادت کی غلامی کیوں کریں اور پارٹی ڈسپلن کی پابندی کا طوق اپنے گلے میں کیوں ڈالے رکھیں۔ تحقیقات کا مطلب ہے کہ جن ارکان نے اپنا آئینی‘ قانونی اور اخلاقی حق استعمال کیا انہیں پارٹی ڈسپلن کے نام پر قیادت کی ناجائز اور مفاد پرستانہ خواہشات کی بھینٹ چڑھایا جائے۔ یہ جمہوریت نہیں فسطائیت اور آمریت ہے۔ سانپ نکل گیا ہے اب لکیر پیٹ کر اپوزیشن اپنی بھد اڑا رہی ہے۔ مزہ نہ سواد۔