حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار ایک مدت بعد پاکستان آئے۔ بائیس جون 2019ء کو پاکستان کے پُر فضا مقام بھوربن میں لاہور پراسیس کے نام سے افغان امن کانفرنس میں شریک ہوئے ۔یہ ایک روز ہ کانفرنس غیر سرکاری تنظیم ، لاہور سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ نے منعقد کی تھی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شریک تھے ۔ افغانستان کی اٹھارہ سیاسی جماعتیں اور ان کے پینتالیس مندوبین نے کانفرنس میں شرکت کی ۔ جماعت اسلامی افغانستان کے سیکرٹری جنرل استاد عطا محمد نور ، حزب وحدتِ مردم افغانستان کے استاد محمد محقق ، سابق افغان وزیر دفاع وحید اللہ سبوران،، افغان امن جرگہ کے سربراہ محمد کریم خلیلی، قومی سلامی فرنٹ کے سربراہ پیر سید حامد گیلانی،معروف افغان جہادی کمانڈر سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود اور افغان پارلیمنٹ کے اراکین نے شرکت کی۔ رہنمائوں نے افغانستان کے اندر امن اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی ضرورت پر زور دیا۔ قرار دیا کہ پاکستان اور افغانستان اپنی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت حزب اسلامی آج بھی افغانستان کی سیاست میں موثر و نمایاں کردار رکھتی ہے ۔ وہ افغانستان اور خطے کی سیاست سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔ بخوبی جانتے ہیں کہ آج کے حالات کے اندر بھی کونسے محرکات ،عوامل اور قوتیں ہیں جو افغانستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ بھوربن کانفرنس میں گلبدین حکمت یار اشارتاً کہہ چکے ہیں کہ کچھ طاقتیں افغانستان کو استعمال کر کے در اصل اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اور یہ جنگ افغان عوام پر مسلط کی گئی ہے جس میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کا بھی بہت نقصان ہوا ہے ۔ افغان جہاد کے دوران حکمت یار نے کہا تھا کہ افغانوں کی یہ جنگ پاکستان کی بقاء کی جنگ بھی ہے۔ چنانچہ بھوربن میں کانفرنس میں ایک بار پھر موجودہ حالات کے تناظر میں اس جنگ کو پاکستان کی بقاء کی جنگ کہہ دیا۔سچی بات یہ ہے کہ حزب اسلامی تمام تر زیادتیوں و مشکلات کے باوجود پاکستان کے مفادات کے خلاف نہیں گئی ۔البتہ شکوہ کناں رہی ، ہمیشہ ان کی اصلاح کی بات کی ہے۔ حزب اسلامی پر سے عالمی پابندیاں ہٹنے اورافغانستان کی سیاست میں اس کا داخل ہونا گویا پاکستان اور افغان طالبان کے لیے خیر کا باعث بنا ۔ افغانستان کی سیاست میں حزب اسلامی ہی ہے جو پاکستان اور امارت اسلامیہ کیلئے حُسنِ ظن رکھتی ہے ۔ پاکستان سمیت حکمت یار کے لیے کہیں بھی جائے پناہ نہ تھی ۔ امریکی اور اس کی باج گزار افغان فورسز ان کے تعاقب میں تھیں۔ مومن اور مجاہد افغان عوام نے انہیں پوشیدہ رکھا۔ بالکل اسی طرح جیسے امارت اسلامیہ کے سربراہ ملا محمد عمر افغانستان ہی میں مقیم رہے ۔ جنہوں نے ایک بار بتایا کہ ان پر افغانستان کے علاقے ’’شیگل ‘‘میں ڈرون حملہ ہوا ۔ اور ایک بارا مریکی کمانڈوز اتنے قریب آگئے تھے کہ میں ان کی باتیں سن سکتا تھا اور انہیں دیکھ بھی رہا تھا ۔ اور تین راتوں کو ایسا بھی ہوا کہ پہاڑ کی ایک طرف میں اور دوسری طرف امر یکی فوجیوںنے رات گزاری۔ ایسا ہی ایک انکشاف مارچ 2019ء برطانوی اخبار ’’گارجین ‘‘ نے ڈچ صحافی اور مصنف ’’بیٹ ڈیم‘‘ کی کتاب ’’سرچنگ فار اینمی ‘‘ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کیا۔ جس میں کہا گیا کہ ملا محمد عمر زابل میں امریکی فوجی اڈے سے چند فرلانک دوری پر رہائش پذیر تھے ۔ ملا محمد عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی گئی تھی ۔بہت سارے لوگوں کو پتہ تھا کہ اس جگہ ایک اہم طالبان لیڈر مقیم ہے لیکن کسی کی غیرت ایمانی نے مخبری کی اجازت نہ دی۔ ملا محمد عمر اپریل 2013ء میں زابل ہی میں رحلت فرما گئے، اور وہیں سپرد خاک کر دئیے گئے ۔ گلبدین حکمت یار بارہا کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں مزاحمت کی وجہ غیر ملکی افواج کی موجودگی ہے ۔ اور حزب اسلامی یہ بھی سمجھتی ہے کہ افغانستان کے اندر کوئی مقتدر ادارہ موجود نہیں ہے، جو ملت کی رہنمائی کرے۔ نہ پارلیمان کسی کام کی ہے ۔ یقینا ایسی حکومت قومی و ملی مسائل کے حل میں کردار و اختیار کی اہل نہیں ہے ۔ معروضی حقیقت یہ ہے کہ کابل انتظامیہ افغان فورسز اور غیر ملکی افواج افغانوں کا قتل عام کر رہی ہیں ۔ حکمت یار نے سترہ جون 2019ء کو کابل میں اپنے ایک خطاب میں کہا کہ کابل حکومت اور بیرونی قوتیں افغانستان میں سیاسی عمل کو پنپنے نہیں دے رہیں۔ انہیں قومی و ملکی مسائل پر آزادانہ کردار کی ادائیگی کے لیے چھوڑا نہیں جا رہا ۔سیاسی جماعتوں کی جگہ قبائلی شخصیات کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ بقول حکمت یار کہ در اصل سیاسی جماعتیں ہی قوم کو متحد کرتی ہیں۔ جہاں سیاسی احزاب نہ ہوںوہاں قومیں تقسیم ہوتی ہیں ۔ حکمت یار نے یہ بھی کہا کہ نیٹو افواج نے اپنی مرضی کی فوج ، حکومت اور نظام افغان عوام پر مسلط کیا ہے ۔ افغان عوام خود مختاری اور اپنی ملی حاکمیت سے محروم ہیں ۔ امن عمل میں کابل انتظامیہ کی ناگواری کے ضمن میں کہا کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو گا تو ان کے مال اور سیاسی امتیازات کا خاتمہ ہو گا۔ حکمت یار نے غور طلب بات یہ بھی کہی کہ’’ افغانستان میں انتخابات کے وقت کا تعین امریکہ ہی کرتا ہے ۔‘‘وقت قریب ہے کہ امریکہ رخت سفر باندھ لے ۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات دو نکات کے گرد ہو رہے ہیں ، اول غیر ملکی فوجیوں کا انخلاء ، دوئم امریکہ کامل تسلی چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغانستان کے اندر امن کے قیام کے لئے کئی پراسس جاری ہیں ۔ دوحہ پراسس، ماسکو پراسس اسی طرح جرمنی اور چین کے زیر اہتمام بھی بات چیت ہو رہی ہے ۔ماسکو میں ایک بہت بڑی کانفرنس جلد منعقد ہو گی۔ نیز آنے والے چند دنوں میں قطر کے سیاسی دفتر میں طالبان کے سیاسی نمائندے اور امریکی پھر سے مذاکرات کے میز پر اکٹھے ہوں گے۔ اس ذیل میں لاہور پراسس بھی اہم پیشرفت ہے ۔ چودہ جون 2019ء کو کرغزستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر اشرف غنی نے اپنے تذبذب اور پریشانی کا اظہار کیا ۔ کہا کہ دنیا کے بعض ممالک طالبان کے ساتھ سیاسی و سفارتی تعلقات منقطع کریں۔ کیونکہ اس طرح طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ کابل انتظامیہ پر طاری لرزہ سمجھ آنے والاہے ۔بقول حکمت یار کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے تو ان کی آسائشیں ختم ہو جائیں گی۔ کابل کی کٹھ پتلیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ انہیں سرے سے کوئی اختیار حاصل ہی نہیں۔ نہ ہی ان کی اوقات ہے کہ ان سے غیر ملکی قابض افواج کے انخلاء کی بات کی جائے ۔امریکہ افغانستان پر قابض اور حاکم ہے اور امریکہ ہی نے کوئی فیصلہ کرنا ہے ۔