پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ(آر پی آئی)کے زیراہتمام بھارت اور پاکستان کے مابین ٹریک ٹو مذاکرات کا پہلا دور چار سال کے طویل عرصے کے بعدجمعہ 12جولائی 2019 کوپاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہوا۔ 2015ء میں یہ سلسلہ ٹوٹ چکاتھا ۔ ٹریک ٹو سفارتکاری میںشریک چھ رکنی وفد بھارتی وفد بذریعہ واہگہ لاہور اور وہاں سے اسلام آباد پہنچا۔ وفد میں دو صحافی، دو لیکچرارز اور دو تھنک ٹینک کے ڈائریکٹرز شامل تھے۔ ٹریک ٹو مذاکرات کا پہلادوربروزہفتہ13جولائی کو ختم ہوا۔اس میں یہ طے پایاکہ دوسرا دور ستمبر میں دہلی میں ہو گا۔ آر پی آئی ((RPI کا کہنا ہے کہ پاک بھارت حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کا پہلا راستہ ٹریک ٹو سفارتکاری ہے۔ادارے کے ڈائریکٹر کاکہناہے کہ ان مذاکرات کا بنیادی مقصد دونوں ملکوں کے نوجوانوں کو امن کی جانب لانا ہے۔ کرہ ارض پرموجود،دوست ممالک کے درمیان رابطوں کاذریعہ ’’ٹریک ون‘‘ یا آفیشل ڈپلومیسی ہوتاہے جس میں سفراء اپناسفارتی رول اداکرتے ہوئے بالآخر بات وزرائے خارجہ تک آجاتی ہے اوروزرائے خارجہ یہ طے کرتے ہیں کہ سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم باہم کب کیسے اورکہاں ملیں گے اور ملاقات کریں گے۔ لیکن جن ممالک کے مابین کئی مسائل اورتنازعات کی موجودگی میں صورتحال کشیدہ ہوجس کے باعث دونوں حکومتوں کے درمیان ڈائریکٹ رابطے ختم ہو جاتے ہیں یا ان میں کوئی لچک نہیں رہتی تو پھرانکے باہمی رابطوں کاذریعہ’’ ٹریک ٹو ڈپلومیسی ‘‘کہلاتی ہے۔اس میں غیرسرکاری اورپیشہ ورانہ تھینک ٹینک، میڈیامین، اکیڈیمیا، سابق سفیر یا سابق فوجی افسران ہوتے ہیں۔ ٹریک ٹو بنیادی طور پر درپردہ سفارت کاری ہوتی ہے۔ دونوں ممالک کے اس طرح کے غیرسرکاری امور کے ماہرین مل بیٹھتے ہیں اور مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل تجویز کرتے ہیں، ان کی سفارشات رپورٹس کی شکل میں مرتب کی جاتی ہیں اور حکومتوں کے ساتھ شیئرکی جاتی ہیں۔لیکن ان ماہرین اموریاتھینک ٹینک کی کوشش ہوتی ہے کہ تنازعات اورمسائل کوبالائے کے حل تلاش کوبالائے طاق رکھ کرباہم تجارت کوفروغ دیاجائے ۔اس تجارت میں غذائی اجناس کے علاوہ مختلف اشیاء اوروفودکے تبادلے ہوتے ہیں۔ٹریک ٹو سفارت کاری اکثر ایسی منصوبہ بندی بنا دیتی ہے جس پر حکومت عمل کر لیتی ہے۔کیونکہ یہ اصل مسائل کوپس پشت ڈال کرآسان اورسہل امورکی عمل آوری پرزوردیتی ہے ۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے پیچھے اکثرکسی تیسرے فریق ادارے یاپھرکسی ملک کاعمل دخل ہوتاہے بین الاقوامی سطح کے کچھ ادارے باہم مخاصم ممالک تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت اورپاکستان کے مابین ٹریک ٹوڈپلومیسی کبھی ختم نہیں ہوتی البتہ اسے واشگاف کرنے یانہ کرنے کے رویے تبدیل ہوتے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ہوئی ٹریک ٹوملاقات واشگاف ہوئی جبکہ اسے محض ایک ہفتہ قبل تھائی لینڈ میں ٹریک ٹومذاکرات منعقدہوئے جبکہ اسے قبل تاشقند میں بھی یورپی یونین کے تعاون سے پاکستان بھارت ٹریک ٹو مذاکرات ہوئے ہیں جس میں پاکستان کی جانب سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی سابق سربراہ جنرل ر احسان الحق اور شعیب سڈل سمیت دو رکنی اور بھارت کی جانب سے سابق سفیر ایس کے لامبا کی سربراہی میں تین رکنی وفد تھا۔پاکستان، بھارت کے مابین اکثر ٹریک ٹو مذاکرات کومیڈیااور پریس سے اوجھل رکھاجاتاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاٹریک ٹوڈپلومیسی سے کچھ فائدہ مل بھی جاتاہے کہ نہیں۔پرویز مشرف کے دور میں بھارت کوٹریک ٹو سفارت کاری ہو یا خاموش رابطوں کے ذریعے کئی رعائتیں دی گئیں مگر اس نے کشمیر کے مسئلہ پر کوئی لچک نہیں دکھائی۔جسے یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر کوئی پیشرفت کرنے کیلئے تیار نہیں۔لیکن اس کے باوجود اگرپاکستان کسی مجبوری کے باعث بھارت سے ٹریک ٹوکے ذریعے سے رابطے میں رہناچاہتاہے تواسے اس عمل میں کشمیریوں کو اعتماد میں لیناچاہئے۔ کشمیریوں کو بتایا جائے کہ ٹریک ٹو مذاکرات میں ایجنڈاکیاہے۔چونکہ بھارت کشمیر پر کوئی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی فوج مظالم کے میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کو پس پشت ڈال کر تجارت، فنکاروں کے وفود کے تبادلوں تک محدود رہنا چاہتا ہے۔ اگرعمران خان بھی کشمیر کو پس پشت ڈال کر وہ بھارت سے تعلقات بہتر بنائیں اور صرف اقتصادی ترقی پر توجہ دیں تو یہ درست مشورہ نہیں زندہ قومیں اپنے حقوق کیلئے ہر حالت میں لڑتی ہیں۔ کشمیری تھک نہیںچکے وہ روزانہ عظیم شہادتیں پیش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ پاکستان کی موجودہ قیادت تھک گئی ہے تو الگ بات ہے۔ عالمی برادری کشمیر کے مسئلے کی سنگینی سے آگاہ ہے۔ امریکہ اور دوسرے ممالک کو احساس ہے کہ جنوبی ایشیا ایٹمی خطہ ہے۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو تباہی آسکتی ہے۔ بہرکیف!اسلام آبادمیں ہوئے ٹریک ٹوڈپلومیسی میں شریک وفد کامجموعی طورپریہ کہناتھاکہ یہ بہت ضروری ہے کہ کلچر آف پیس بنایا جائے کیونکہ صرف مذاکرات کے ذریعے آگے بڑہا جا سکتا ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، جنگ ہو گی تو خوشحالی نہیں آئے گی، نہ پاکستان میں نہ ہی انڈیا میں۔وفدکے ارکان کاکہناتھاکہ ان مذاکرات میں وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے نوجوانوں کے درمیان مضبوط رابطوں اور دونوں ملکوں میں سیاسی سطح پر ٹھوس اقدامات کی بات کے خواہاں ہیں۔وفد میں شامل سائوتھ ایشیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بینانجے تیریپاتھی نے تجویز دی کہ اس وقت انڈیا کی کسی یونیورسٹی میں کوئی پاکستانی طالبِ علم زیر تعلیم نہیں اور پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں کوئی انڈین طالب علم نہیں، دونوں ملکوں کو اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرامز پر کام کرنا چاہیے۔ جبکہ ویزوں کی پالیسی میں بھی دونوں جانب سے نرمی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔جبکہ پاکستانی وفد میں شامل وقار احمد کاکہناتھاکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تجارت کے شعبہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس پر کام ہونا چاہیے، تاکہ ملکوں کی معیشت میں بہتری آئے۔ اور غربت پر کچھ قابو پایا جا سکے۔ جب دونوں ملکوں کا تعلق معیشت پر انحصار کرنے لگے گا تو جنگ و جدل اور نیوکلیئر بموں کے دعوے اور چیخ و پکار سنائی نہیں دے گی ، سب مذاکرات سے ہی حل ہو گا۔