شیخ سعدی کہتے ہیں۔ تا بدْکّان و خانہ در گروی ہرگز اے خام! آدمی نہ شوی برو! اندر جہان، تفرّج کْن پیش ازان روز، کز جہان بروی یعنی، "گھر سے نکل کر دنیا کو دیکھو گے نہیں تو خام ہی رہو گے۔ تا آنکہ تمہارا آخری سفر آ پہنچے، یہ سیر کر لو"۔ اٹلی کا شہر روم دیکھنے کی، بڑی خواہش تھی۔ دنیا کے سب سے تاریخی شہروں میں، یہ بھی شامل ہے۔ یورپ کا پھیرا، یوں تو آٹھ دس بار ہوا، مگر روم دیکھنے کی تمنا ہی رہی۔ سو ٹھان رکھی تھی کہ نئے شہروں میں پہل، اسی سے کی جائے۔ روم کو دیکھ کر، اب کہہ سکتا ہوں کہ تاریخی اعتبار سے، یہ لندن اور پیرس سے زیادہ ہی وقیع ہے، کم نہیں! لندن میں تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے، کچھ نہ کچھ مسافت طے کرنا ہی پڑتی ہے۔ روم میں البتہ، قدم قدم پر تاریخ کے نشان ثبت ہیں۔ ایک چوک میں آپ کو وہ محل نظر پڑتا ہے، جو میسولینی کی اقامت گاہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ بنکر یا زیر ِزمین پناہ گاہ ہے، جو جنگوں میں محفوظ رہنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ علامہ اقبال میسولینی سے جب مِلے ہیں تو یورپ کی "مہذب" اقوام، میسولینی کی سخت گیری سے، برافروختہ تھیں۔ علامہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا تھا ع کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جْرم؟ اشارہ اس طرف تھا کہ مسولینی اگر اْپی تلوار ہے، تو آپ میٹھی چھْریاں ہیں۔ یہ بھی کہ میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو بْرا لگتا ہے کیوں؟ ہیں سبھی تہذیب کے اوزار، میں چھَلنی تْو چھاج! شہر کو دیکھ کر فرمایا۔ ع سواد ِرومتہ الکبرٰی میں، دِلّی یاد آتی ہے دِلّی تو نہیں دیکھی، روم میں لاہور البتہ بے اختیار یاد آیا۔ ویسی ہی تنگ گلیاں اور گلیارے! ان میں کھْلتی، کھڑکیاں اور دریچے۔ ہاں! ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جھروکوں سے جھانکتی صورتیں، نہ ویسی دلنشیں ہیں اور نہ دلکَش! نسوانیت یہاں کی خواتین میں کم اور مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے! عورتوں کے چہرے، روئیدگی کیا معنی، باقاعدہ بال دار ہیں! کم رْوئی میں، اطالوی خواتین انگریزنوں اور فرانسیسیوں سے بھی آگے ہیں! کہنا چاہیے کہ اس بدہیئتی نے، شہر کی خوبصورتی کو بھی متاثر کیا ہے! اطالوی قوم اچھی خاصی کاہل بھی ہے۔ آج کا کام یہ لوگ کل، اور کل کا کام پرسوں پرٹالنے والوں میں ہیں! جتنی محنت امریکن ایک دن میں کرتے ہیں، اتنی یہ شاید ایک ہفتے میں بھی نہ کرتے ہوں! ویٹیکن سٹی کے بعد، یہاں کی سب سے مشہور زیارت، کولوسیئم ہے۔ یہ عمارت، ساڑھے انیس سو سال پْرانی ہے۔ گویا حضرت ِعیسیٰ کے معاً بعد کا زمانہ۔ اس دور کے پہلوانوں کا، یہ اکھاڑہ تھا۔ یہ پہلوان، گلیڈی ایٹر کہلاتے تھے۔ کولوسیئم ہمارے یہاں کے دنگلوں سے اتنا بڑا ہے کہ دسیوں ہزار تماشائی اس میں کھپ جائیں۔ دیسی دنگلوں میں جب جوڑ چھْوٹتی ہے تو پہلوان پہلے، اپنے ڈنڑ قبضے کی نمائش کے ساتھ، پریڈ کرتے جاتے ہیں۔ لڑنت سے قبل، مچھلیوں کو پھْلا کر اور ان پر ہاتھ پھیر پھیر کر، تماشائیوں کو مرعوب کرتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے، آپس میں گْتھ جاتے ہیں۔ اْدھر ان کے استاد، اپنے پٹھوں کا دِل بڑھانے کو، موجود رہتے ہیں۔ اس واسطے بھی کہ شاگر اگر ہار گیا تو استاد کی بھی مونچھ نیچی ہو جائے گی۔ تماشائیوں کے شور سے کان پھٹے جاتے ہیں۔ کچھ یہی حال گلیڈی ایٹروں کا ہوتا تھا۔ ہاں! یہ فرق ضرور ہے کہ باقاعدہ کیل کانٹے سے، یہ لیس ہوتے تھے اور لڑائی، اکثر، ایک کی موت پر منتج ہوتی۔ دو ہزار سال پرانی اس عمارت کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس پر رنگ و روغن، ممکن ہے کبھی رہا ہو، اب تو یہ اینٹوں سے اْٹھائی گئی، بظاہر سادہ اور خستہ سی عمارت ہے۔ اس خستگی اور سادگی نے، مجھے تو متاثر ہی کیا۔ بلکہ عظیم الشان عمارتوں کے مقابلے میں، دِل پر اس طرح کی تعمیر، زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ کسی استاد کا شعر یاد آتا ہے۔ از نقش و نگار ِدر و دیوار ِشکستہ آثار پدید ست، صنادید ِعجم را (ٹوٹے ہوئے درودیوار کے نقش و نگار، عجمی بْزرگوں کی عظمت کے بقیہ نشان ہیں) روم میں پانی کے نلکے، جگہ جگہ کھْلے ہوئے ہیں۔ جی ہاں! کھْلے ہوئے نلکے، جن سے پانی بہا جاتا ہے۔ سخت گرمی میں، لوگوں کو قطار اندر قطار، اپنی بوتلوں اور مختلف ظروف میں یہ پانی بھرتے دیکھا تو خیال آیا کہ اس کا ماخذ، ضرور متبرک رہا ہو گا۔ لیکن کسی نے بتایا کہ یہ پانی، پہاڑوں سے پھْوٹا ہے اور پینے کو مفید ہے۔ جنوبی فرانس کا شہر نِیس، اگلی منزل تھا۔ چند سال پہلے، یہاں ایک بدبخت ٹرک ڈرائیور نے درجنوں لوگوں کو کْچل ڈالا تھا۔ اس واقعے نے، اْس وقت جتنا بھی سہمگیں کیا ہو، لرزایا ہو، اب تو لوگ یہاں، بشاش اور مگن ہی دکھائی دیے۔ ساحل ِسمندر پر ہجوم، چونکہ زیادہ ہوتا ہے، وہاں سکیورٹی کا انتظام خاصا سخت تھا۔ غالب کا مصرع ہے کہ ع قیس، تصویر کے پردے میں بھی عْریاں نکلا لیکن کیسا قیس اور کیسی تصویر! دور ِحاضر کے مجنوں اور لیلٰی دونوں، سْنا ہے یہاں کے ایک ساحل پر، بالکل بے لباس پھِرتے ہیں۔ ہر طرح کا پردہ، اْٹھا دیا گیا ہے۔ نہ جسم کا پردہ، اور نہ آنکھ کا! مغربی "تہذیب" کا کوئی نمونہ دیکھ کر اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا لکھے گا کِلک ِحسرت، دْنیا کی ہسٹری میں اندھیر ہو رہا تھا، بجلی کی روشنی میں مگر یہ اندھیر، دن دہاڑے، کھْلے آسمان تلے، لوگوں کے درمیان ہو رہا ہے۔ ع قلم اینجا رسید و سر بشکست نِیس سے بیس پچیس منٹ کی مسافت پر، موناکو واقع ہے۔ اس کا دارالحکومت مونتی کارلو بھی، دیکھنے دکھانے کی چیز ہے۔ گھنٹے دو گھنٹے میں، شاہی محل اور جْوے خانوں سمیت، سارے مشہور مقام دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن شہر کی اصل خوش نمائی یہ ہے کہ پہاڑ اور سمندر، ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آپ پہاڑ سے سمندر کا نظارہ کر سکتے ہیں اور سمندر میں پہنچ کر، پہاڑ پر نگاہ کر سکتے ہیں۔ زیادہ خوش مذاق ہیں تو ان دونوں کے بین بین، سفر کیجیے۔ دو گھنٹے یہاں ٹھہر کر، نِیس واپسی ہو گئی۔ آخری پڑائو، ہسپانیہ کا شہر بارسلونا تھا۔ قرطبہ و غرناطہ سے یہ، ہزاروں میل دْور ہے۔ مگر عرب یہاں بھی اس طرح خلط ملط ہوئے تھے کہ ان کی معاشرت کے کچھ نہ کچھ نشان آج بھی باقی ہیں!