مریم نواز رکنے کے موڈ میں نہ تھیں تو ہم کیوں رکیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ پریس کانفرنس کس لئے کی گئی اس کا مقصد کیا تھا اور کیاتھا اور ہدف کیا۔ دونوں چیزوں کا ہونا اہم ہے اور یہ دونوں الگ الگ امر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نے سب کو چت کر دیا۔ مگر کیا حرج ہے کہ اس کا اچھی طرح تجزیہ کر لیا جائے۔ یہ بھی تو جاننا ضروری ہے کہ اس سے حاصل کیا ہو گا۔ دو تین ایشو ہیں جن پر الگ سے بات کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ مقصد بتایا گیا کہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مقصد بہت وضاحت سے بیان ہوا۔ اس وقت ان کے دل کی جو کیفیت ہے۔ شاید کوئی ڈاکٹر اسے ہاتھ لگانے کو تیار نہ ہو۔ ایسا ہوتا ہے جب ہمارے آرمی چیف جنرل آصف نواز کو دل کا دورہ پڑا تو فوج کا ہر ہنر مند اور باصلاحیت سرجن ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھا۔ آخر کو شاید سرجن جنرل کو سامنے آنا پڑا۔ بڑی شخصیات کے بارے میں ایسا ہوتا ہے جب کہ خطرات بے شمار ہوں۔ مریم نے بتایا ان کے گردوں کی صورت حال ایسی ہے کہ انجیو گرافی کے لئے ڈائی استعمال کرنے میں معاملہ خراب ہوسکتا ہے۔ دل میں پیس میکر ہی نہیں کوئی اور آلہ بھی منسلک کرنا ضروری ہے۔ ان کی پہلے دو سرجریاں ہو چکی ہیں۔ انہیں سات سٹنٹ پڑ چکے ہیں یہ غالباً انکشاف ہو گا اور انہیں تین بار ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے۔ تیسری بار ہسپتال میں جس سے فیملی کو بے خبر رکھا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحت کے اس پروفائل کے ساتھ کیا کسی لیڈر کا یہ امیج بنتا ہے کہ وہ قوم کی فعال قیادت کر سکتا ہے۔ ابھی تک نواز شریف نے جس جوانمردی کا ثبوت دیا تھا اس نے ثابت کر دیا تھا کہ صحت کے مسائل کے باوجود وہ ملک کے ہنگامی دورے اور بڑے جلسوں میں پرجوش تقریریں کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔کہیں ان کے اس امیج پر کوئی اثر تو نہیں پڑا ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب بنانے کی ضرورت کیوں پڑی۔ اس لئے کہ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔ مریم نوازسے جب یہ پوچھا گیا کہ عدالتیں ان کا موقف تسلیم نہیں کررہیں تو کیا وہ بین الاقوامی سطح پر مسئلے کو اٹھائیں گی۔ بیٹی کا جواب کسی تذبذب کے بغیر یہ تھا کہ وہ ہر سطح تک جا سکتی ہیں۔ ن لیگ نے حتیٰ کہ مریم نواز نے اس سے پہلے اس طرح کا سخت موقف اختیار نہیں کیا۔ مریم نے تو یہ تک کہا کہ بہت سارے ممالک میں ان کے پاس اور نواز شریف کے پاس‘ مگر قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ خاموش رہا جائے۔ یہ بالکل تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت حال ہے۔ پیپلز پارٹی والے اس حد تک جاتے ہیں مگر ن لیگ ہمیشہ اپنی حدود میں رہتی آئی ہے۔ وہ سوال تو باقی ہے کہ یہ فیصلہ کس لئے کیا گیا کہ سزا کی معطلی کی درخواست اس بار میرٹ کے بجائے صحت کی بنا پر دائر کی جائے۔ایک بار وہ میرٹ کی بنیاد پر ہائی کورٹ سے مقدمہ جیت چکے ہیں مگر سپریم کورٹ نے اس پر بہت ڈانٹ ڈپٹ کی تھی۔ ثاقب نثار نے تو یہ تک کہا تھاکہ ایسے ہوتے ہیں فیصلے وغیرہ وغیرہ۔ اس بار جب میرٹ کی بنیاد پر درخواست واپس لی گئی تو کہا ایسا ہی کچھ ذکر تھا یاکیا تھا۔ کسی نے مشورہ دیا تھا۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سپریم کورٹ میں اس وقت جو بنچ ہے وہ وہی ہے جس نے نواز شریف کے خلاف نااہلی کے بنیادی مقدمے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس پر یہی اعتراض تو ہوا تھا کہ اب اس کے بعد کون عدالت سپریم کورٹ کے خلاف فیصلہ دینے کی جرأت کرے گی۔ مزید کیا لکھوں‘ یہ اعتراض تو بے بنیاد نہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد‘ بالخصوص جب وہی جج موجود ہوں کوئی نواز شریف کو بے گناہ نہیں ٹھہرا سکتا۔ یہ انصاف کا ایک لمبا عمل ہے جس میں رعایت کسی اور بنیاد پر تو مل سکتی ہے مگر میرٹ کی بنیاد پر خاصا نازک معاملہ ہو گیا ہے۔ اس لئے شاید صحت کا راز فاش کیا گیا مگر لیڈر اپنی صحت کو بھی یوں بے نقاب نہیں کیا کرتے۔ بہرحال اس کانفرنس کی دو ایک باتیں اور ہیں جو بحث کا سبب بنی ہیں۔ ایک تو میثاق معیشت کے بارے میں مریم کا دو ٹوک موقف کہ یہ مذاق جمہوریت ہو گا کہ جس شخص نے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا اس کے ساتھ بات کی جائے‘ اس نااہل اعظم کے ساتھ کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ جب پوچھا گیا نواز شریف بھی یہی سمجھتے ہیں تو آہستہ سے بے ساختہ اس کی تائید کی۔ ظاہر ہے اس پربحث شروع ہو گئی کہ مریم نے اپنے چچا اور پارٹی کے سربراہ شہباز شریف کے موقف کو رد کر دیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے لاکھ کہا کہ یہ مری ذاتی رائے ہے۔ شہباز شریف ایک Pragmaticآدمی ہیں‘ ان کے سامنے پارلیمنٹ میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر بھی کوئی شک نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے بھائی کے بھی ہمیشہ وفادار رہے۔ مگر منہ سے نکلی بات کو لوگ لے اڑے۔ بحث شروع ہو گئی کہ کیا دونوں سیاسی خانوادوں کی نئی نسل نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ سخت موقف اختیار کریں گے۔ مریم اور بلاول اس معاملے میں ایک ہی پیج پر ہیں۔ ایک منٹ مان لیا جائے کہ مریم کا موقف اس معاملے میں درست ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف نے تنگ آ کر یہ حکمت عملی وضع کی ہے۔ شہباز شریف نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ ماضی میں ہم آفر کرتے رہے ہیں۔ سپیکر اسد قیصر نے منہ کی بات کہہ دی اور فوراً کہا ہم اب ایسا کرتے ہیں۔ شام تک پارٹی کی خواہش کا اعلان بھی ہو گیا۔ کسی کو مگر اعتبار نہیں کہ ادھر اس طرح کا تعاون شروع ہو گا ادھر تحریک انصاف کے ترجمان یہ الگ الاپنے نہیں لگیں گے کہ این آر او نہیں ملے گا۔چوروں‘ڈاکوئوں کوکوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ عمران خاں جھکنے والا آدمی نہیں۔ بجٹ کا مرحلہ گزر جائے گا اور بات ٹھس ہو کر رہ جائے گی۔ اس سے یقینا یہ تاثر بھی کم ہونے لگا کہ مریم اپنی والدہ کی وفات کے بعد سیاست سے بے زار سی ہو گئی تھیں بعض لوگ یوں کہتے ہیں ایک بار جیل جا کر اب وہ دوبارہ جیل جانا نہیں چاہتیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ جیل چلی بھی جائیں تو اس سے کیا مقصد حاصل ہو گا۔ اس بار جب نواز شریف جیل گئے ہیں تو گویا کشتیاں جلاکر گئے تھے۔ وہ یہ طے کر کے گئے ہیں کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنے والا نہیں۔ ان کے چپ رہنے سے کوئی مہربان نہیں ہو گا۔ ایسے میں وہ اپنے بیانیے پر سمجھوتہ کیوں کریں جس نے ان کے موقف کو پذیرائی بخشی اسے عام کیوں نہ کریں۔ البتہ یہاں سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ مریم کی لیڈر شپ تو شاید مضبوط تر ہو جائے مگر خود پارٹی کہاں کھڑی ہو گی۔ مسلم لیگ ن کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ان کے بیانئے کے مضبوط ہونے سے حق کا بولا بالا بھی ہوتا ہے مگر اس سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ اس لئے میں نے شروع میں مقصد اور ہدف کو الگ الگ استعمال کیا تھا۔ میں ان لوگوں میں ہوں جو اول دن ہی سے اس بات کے قائل ہیں کہ اگر موروثی سیاست ہی چلنا ہے تو خانوادہ شریف میں نئی نسل کی سربراہ مریم ہی کو ہونا چاہیے۔ یہ سب درست ہے مگر فوری سیاست کے تقاضے شاید اس بات کا تقاضا بھی کرتے ہیں کہ اس نئی قائد کی حفاظت کی جائے۔ اس کے دشمنوں میں بھی اضافہ نہ کیا جائے اور پارٹی کو بھی پائوں پر جمے رہنے دیا جائے۔ مریم نے اپنی پریس کانفرنس میں دو باتیں بھی بڑی اہم کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان مصر نہیں ہے اور نواز شریف مرسی نہیں ہے۔ جانے یہ کس بات کا جواب دے رہی تھیں۔ کوئی پس منظر نہ بھی تھا تو بھی یہ ایک معنی خیز بات ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ قرضوں کا جائزہ لینے کا کمشن بنانا چاہتے ہیں تو ضرور بنائیں ساتھ ہی گرانٹس کا بھی جائزہ لیں‘ وہ کہاں خرچ ہوئیں‘ کولیشن سپورٹ فنڈز کو بھی دیکھیں ۔مریم کے تیور دیکھ کر کسی نے دو ٹوک سوال کیا آپ ایم آئی اور آئی ایس آئی کا بھی ذکر کر رہی ہیں۔(انہوں نے شاید قرضوں والے کمشن میں ان اداروں کے نمائندوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں فنانس کا کیا علم) اور اب کولیشن سپورٹ فنڈ کا تو کیا اب پھر سکیورٹی اداروں کو ہدف بنانا چاہتی ہیں۔ ظاہر ہے مریم نے اس کی تائید تو نہ کرنا تھی مگر جواب نفی میں بھی نہیں دیا۔ کچھ ایسا کہا جیسے یہ بات بھی غلط نہیں۔ اور بہت سی باتیں ہیں جو اس پریس کانفرنس کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں تاہم یہ مریم کی پہلی سیاسی پرفارمنس تھی جیسے شکر گڑھ کا جلسہ‘ پہلی سیاسی پیش رفت۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نے ایک ہلّے ہی میں پارٹی کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ باقیوں کا کیا بنے گا اور اگر صورت حال ایسی پیدا ہوئی کہ قیادت انہوں نے از خود سنبھال لی تو عوام کا رجحان تو ان کی طرف ہو گا مگر پارٹی کدھر جائے گی۔ بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں عظمیٰ بخاری کو تو بہ لحاظ عہدہ یہاں ہونا چاہیے تھا۔ مگر مریم اورنگ زیب کیوں نہ تھیں اور ہمارے دوست پرویز رشید دوبارہ کہاں سے نمودار ہو گئے ہیں یہ آخری بات کسی کے لئے اہم ہو نا ہو۔ میرے لئے اہم ہے فی الحال اتنا ہی!