مدینہ میں ہمارے شب و روز بہت اچھے گزر رہے ہیں۔ مسجد نبوی میں آتے جاتے راستے میں بیٹھتے ہوئے کبوتروں کو ہم رشک سے دیکھتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ جانگلی کبوتروں کے ساتھ کچھ سفید کبوتر بھی شامل ہو گئے ہیں مگر وہ اتنے آنکھوں کو نہیں بھاتے جتنے خاکستری کبوتر۔ ان کو دانہ ڈالنے والے بھی ان کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ ساری نسبت کی باتیں ہیں۔ میں جنت البقیع گیا تو وہاں پہرے کی صورتحال ہوتی ہے۔ وہاں دو زائرین مجھے ملے جن سے میں نے جنت کی سردار حضرت فاطمۃ الزھراؓ کی قبر کا پوچھا تو مخاطبین نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے پاس موبائل میں باقاعدہ نقشہ تھا جس کی مدد سے وہ مجھے قبروں کے بارے میں بتانے لگے۔ سامنے دور ایک قبر کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت فاطمہؓ کی قبر ہے مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے حجرے میں ہی دفن ہوئیں۔ جنت البقیع میں حضرت امام حسنؓ کی قبر ہے۔ کچھ اور قبروں کی نشاندہی بھی انہوں نے کی۔ حضرت امام حنبل کی قبر بھی وہاں تھی۔ امام حنبل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مدینے سے باہر نہیں نکلتے تھے کہ کہیں باہر ہی موت واقع نہ ہو جائے۔ جنت البقیع میں عورتوں کا آنا منع ہے۔ یہ فجر اور عصر کے بعد کھلتا ہے۔ وہاں سے پیدل ہی میں گھومتا ہوا باب بدر کی طرف آیا۔ ابھی بھی وہاں اردگرد توسیع کا کام ہو رہا۔ وہاں انتظامات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ہر طرف حاجی ہی حاجی نظر آتے ہیں۔ بعض تو بالکل معذور اور لاچار نظر آتے ہیں مگر ان کو ان کی طلب کھینچ لاتی ہے۔ ایسے ہی کئی بہت ضعیف لوگ بھی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ملتے ہیں تو سلام کرتے ہیں اور اکثر سلام اور الحمد اللہ سے بات آگے نہیں بڑھتی۔ زبان اجنبی نکلتی ہے۔ رنگ الگ، ثقافت اگل اور شناخت الگ مگر درمیان میں اسلام کا رشتہ۔ کلمہ طیبہ سے بندھے ہوئے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے پیمان کی تجدید کرنے در پر آئے پڑے ہیں۔ انہیں آقاؐ کے غلام ہونے پر فخر ہے۔ سعدحجت ہے مری بات پہ عظمت اس کی اس نے در سے تو کسی کو نہیں ٹالا ہے میاں اور جہاں تک بات ہے اللہ کے محبوب کی تو اقبال نے بات کہہ کر قلم توڑ دیا: کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں اور اس سے بھی زیادہ مندرجہ بالا شعر کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب کے سپرد کیا کچھ کر دیا۔ لوح بھی تو قلم بھی تو تیراؐ وجود الکتاب گنبد آب گینہ رنگ تیرے محیط میں حباب میں کمرے سے ذرا جلدی نکلا کہ آقاؐ کو سلام کرکے قرآن پاک اور نوافل پڑھوں گا۔ سلام کرکے دارالسلام سے نکل کر واپس آیا تو مسجد نبوی کی صفائی ہو رہی تھی اور ارد گرد فیتہ لگا دیتے ہیں۔ میں نے دروازے سے باہر نکل کر دو نفل پڑھے تو وہاں دو تین خادمین ناشتہ کر رہے تھے۔ میں نفل پڑھنے کے بعد ان کے پاس جا بیٹھا کہ ان میںایک تو فیصل آباد کا عبداللہ محمد عمر اور سندھ سے عارف تھا۔ ان سے تعارف ہوا تو وہ محبت میں مہکنے لگے کہ خدام نبیؐ بن کر انہیں دنیا بھر کی دولت مل گئی ہے۔ عبداللہ کو وہاں 6 سال ہو گئے ہیں اور عارف کو شاید 8 سال۔ ان سے گفتگو ہوئی تو عبداللہ بتانے لگا کہ جب وہ مکہ میں خدمت پر معمور تھا ایک رات اس نے دیکھا کہ سفید رنگ کے پرندے جو بھلے محسوس ہوتے تھے آ کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے۔ دوسرا اس نے یہ بتایا کہ ریاض الجنۃ پر ایک مرتبہ سارا منظر دودھیا سا ہو گیا اور وہ اس منظر کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ میں ان دونوں سے گلے ملا اور ہم آئندہ ملنے کے وعدے پر رخصت ہوئے: کوئی نقطے سے لگاتا چلا جاتا ہے فقط دائرے کھینچتا جاتا ہوں میں پرکار کے ساتھ ہم مسجد قبا بھی گئے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد احد گئے۔ اب تو وہاں ایک شاندار مسجد حمزہ بن چکی ہے۔ ہم نے اس کے احاطہ کے باہر کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی جہاں آقا ؐکے پیارے چچا حمزہ مدفون ہیں اور ان کے 70 کے قریب احد کے دوسرے شہید بھی، ہمارا پروگرام بدر جانے کا بھی بن رہا ہے مگر یہ ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت ہے۔ پھر مکہ پہنچ کر عمرہ بھی تو کرنا ہے۔ کھجوریں ہم نے مدینہ کی مارکیٹ سے خریدی ہیں۔ عجوہ 30 سے 40 روپے کلو تک ہے۔ ہم نے تو بھائو تائو کرکے ملتان کے دکانداروں سے 28 روپے کلو خریدی۔ کئی قسم کی کھجوریں ہیں۔ کھانے والی مہنگی ہیں، بانٹنے والی سستی ہیں۔ ویسے مومن کو دوسروں کے لئے وہی پسند کرنا چاہئے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ ہم نے کھجوریں خرید تو لی ہیں مگر پتہ چلا کہ مکہ میں قیام 37 روز کا ہے۔ کھجوروں کو کیڑا لگ سکتا ہے۔ اگر اندیشہ ہوا تو ہم کھجوریں خود ہی کھا لیں گے اور تقسیم کے لئے مکہ سے خریدیں گے۔ یہاں اشیا کی قیمتیںمقرر نہیں۔ بالکل پاکستان کی طرح دائو لگا لیتے ہیں۔ مثلاً دہی 2 ریال کا بھی ہے، ڈیڑھ ریال اور ایک ریال کا بھی۔ وہاں بھی بندہ دیکھ کر ریٹ لگا لیا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ بھی ایسے ہی ہے جیسے یہاں سواریاں کھینچتے ہیں۔ اردو بولنے والے تو کافی تعداد میں ہیں۔ کئی لوگ ایسے ملکوں سے آئے ہیں جوہم نے پہلی مرتبہ سنے۔