ہائے ! وہ بھی کیا دن تھے ابھی سترہ ستمبر میں سترہ دنوں کی مسافت ہو اکرتی تھی کہ شہر قائد کی دیواریں ’’قائد‘‘ کی چاکنگ سے رنگین ہوجاتیں،کیا ایم اے جناح روڈ اور کیا شاہراہ فیصل ،کیا دہلی کالونی اور کیا ناگن چورنگی لیاری اور پشتون بلوچ،سندھی آبادیوں کو چھوڑ کر کراچی کے ہر علاقے میں ’’قائد‘‘کی جے جے کار ہوتی،اہل علاقہ پر سترہ ستمبر کے روز خیر مقدمی بینرزپوسٹر اور وال چاکنگ اور جشن فرض ہوا کرتی تھی کسی علاقے سے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی تو اس پورے علاقے کواسکا اجتماعی کفارہ ادا کرناپڑتا جو بہت بھاری پڑتا تھاجامعہ کراچی میں چوں کہ ’’قائد‘‘ نے ستر کی دہائی میں داخلہ لے کر اسے عزت بخشی تھی اس لئے یہاں کچھ زیادہ ہی جوش و خروش پایا جاتا تھا اور فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کا جوش و خروش عقیدت کے پیڑ پر چڑھا ملتا تھا’’قائد‘‘ کے متوالوں کے لئے فارمیسی کی کے درودیوار دیوار گریہ کے سے مقدس تھے یہاں خوب رونق میلہ لگا کرتا تھا قائد کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی لڑکیاں بالیاں خاصا اہتمام کرتی تھیں شہر میں جشن کا سا سماں ہوتا تھا اور اس جشن کے سارے اخراجات ’’ساتھی بھائی ‘‘ شہر قائد کے بدقسمت شہریوں سے کھڑے کھڑے وصولتے تھے کسی بلٖڈر،کسی فیکٹری کے مالک ،کسی دکاندار کی مجال نہ تھی کہ وہ انکار کا الف بھی زبان پر لاتا کوئی سرپھرایہ ’’الف ‘‘ ادا کرنے کی ہمت کر تا تو جلد ہی اسکی زندگی کی بڑی ’’ے‘‘ آجاتی ،شہر میں بپا کئے جانے والے اس جشن کا کلا ئمیکس اس وقت عروج پرہوتا جب وسیع و عریض میدان میں ہزاروں لوگوں کے درمیان ’’قائد‘‘ نارتھ ناظم آباد کی مدراس بیکرز کا بنا ہوا خاص کیک تلوار سے کاٹتے ۔۔۔اس وقت نیوز چینلز نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں اس لئے ان مبارک ساعتوں کے ابلاغ کا سارا بوجھ اخبارات پر تھا،انہیں ہدایت مل چکی ہوتیں کہ صفحہ ء اول کی شہہ سرخی قائد کے خطاب کی ہوگی اس کے نیچے چار کالم کی تصویرجلسے کی لگے گی، تصویر کے ساتھ جلسے کی جھلکیاں باکس میں ہوں گی اور سپر لیڈ دیگر رہنماؤں کے عقیدت مندانہ خطاب پر مشتمل ہوگی ایک دو اخباروں کو چھوڑ کر کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ وہ ’’نائن زیرو‘‘ سے آنے والے احکامات کی تعمیل میں چوں چرا کرے۔ ہم نے کہہ تو دیا ہمیں کیا چاہئے ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے اور لطیفہ یہ دیکھئے کہ جس رہنما کے لئے قوم نے منزل ٹھکرائی تھی وہی رہنما قوم میں آنے کو تیار نہ ہوااس پر حیدرآبا دکے پروفیسر عنایت علی خان مرحوم نے کیا غضب کا خیال باندھاتھا وہ تو گئے تھے پیلیا جھڑوانے انگلینڈ میں پھر دوا کے نام پر کچھ پی لیا انگلینڈ میں ایک ورکر نے کہا چپکے سے میرے کان میں قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا انگلینڈ میں سترہ ستمبر الطاف حسین کا یوم ولادت تھا جو آج اسی خاموشی سے گزرا جیسے کسی غریب کے گھرعید کا تہوار گزرتا ہے ،کراچی میں کہیں ایم کیو ایم کے پرچمی رنگ کی چوڑیوں والی کلائیاں دکھائی دیںنہ ’’بھائی ‘‘ کے متوالے نظر آئے وہ پنواڑی،پہاڑی ،کلاشن ،ٹی ٹی ، کن کٹے اور جلسوں میں ’’چریا ہے مہاجر چریا ہے ۔۔۔الطاف کے پیچھے چریا ہے ‘‘ کے نعرے لگانے والے دکھائی دیئے، وقت نے کس تیزی سے کروٹ لی ہے یقین نہیں آتا کہ آج سترہ ستمبر ہے مجھے یقین ہے کہ آج الطاف حسین کو بھی یقین نہیں آرہا ہوگا ،آج اپنی اکلوتی بیٹی افضاکے ساتھ چھوٹے سے کیک پر چھری چلاتے ہوئے الطاف حسین کو اپنی اڑتیسویں سالگرہ تو ضروریاد آئی ہوگی جب ہزاروں لاکھوں چاہنے والوںکے درمیان اپنے قد سے بھی بڑا کیک کاٹنے کے لئے انہیں تلوار تھمائی گئی ،تلوار اس لئے کہ اس کیک کو کاٹنا چھری کے بس کی بات نہ تھی لندن میں خودساختہ من پسند پرسکون اور پرتعیش جلاوطنی کاٹنے والے الطاف حسین یقینا حیران ہوں گے کہ وقت کیسے پلٹا ہے ان کے ہاتھ کی حلیم اور زبان کی گالیاں کافی مشہور ہیں سالگرہ پر انہوںنے حلیم تو نہیں بنائی ہوگی البتہ اپنے بے وفا کارکنوں کو منہ بھر بھر کر گالیاں ضرور دی ہوں گی ۔۔۔الطا ف بھائی کا یہ غصہ انکے حساب سے جائز ہے انہیں یہ تبدیلی کیسے ہضم ہو کہ انہوں نے کراچی والوں کی مثالی محبت اور عقیدت دیکھ رکھی ہے کروٹن کے پتوں اور مسجد کے سنگ مرمر کے فرش پر ان کی شبیہ نمودار ہونے کی اڑائی جاتی اور عقیدت مند خانہ ء خدا کے گھر کے فرش کا وہ ٹکڑا ہی اٹھا کرنائن زیر و لے جاتے اورخلق خدا قطارباندھ باندھ کر خدا کی قدرت دیکھنے کے لئے آتے تب الطاف حسین سمجھیں مہاجروں کے پیر پگارا بن چکے تھے ان کے سامنے جانے کس نے یہ آئیڈیا رکھا تھا انہیں اچھا لگا اورانہوں نے منظوری دے دی جس کے بعد عقیدت کے ٹیکے میں یہ کرامات بھرنا شروع کردی گئیں کبھی خانہ کعبہ میں کوئی بزرگ کسی سے ملاقات میں الطاف حسین کا ذکر کرتا انہیں مسیحا بتاتاکبھی کروٹن کے پتوںکے پیلے داغ بھائی کی شبیہ اختیار کر لیتیں اور کبھی مسجد کے فرش پرآڑھی ترچھی لکیریں پیر صاحب کا اسکیچ بنا ڈالتیں۔۔۔آج اسی کراچی میں قائد کے چاہنے والوں نے انکی سالگرہ پر ڈیڑھ پونڈ کا کیک تک نہیں کاٹاالطاف حسین کے نزدیک یہ بے مروتی سانحے سے کم نہیں تو اور کیا ہوگی اس سانحے کا غم غلط کرنے کے لئے بھائی جانے کیا کچھ کر رہے ہوں گے خیروہ کچھ بھی کریںوقت پلٹ گیا الطاف صاحب کے پاکستان مخالف کرتوتوں نے ان کے ساتھ سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلا ہے انہیں اسی ستر کی گمنام دہائی میں پہنچا دیا ہے جب وہ عظیم احمد طارق سمیت گنتی کے چند لوگوں کے بھائی تھے ۔عجیب اتفاق کہ اس وقت کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نہیں رہا سب قتل ہوگئے باقی بچنے والوں میں الطاف حسین ہی رہے جنہیں اب درجن بھر بیماریوں کے ساتھ اس بے ثباتی کے روگ کے ساتھ زندگی گزارنی ہوگی آخری بات یہ کہ ایسا تو ہونا تھا کہ فانی دنیا میں سدا عروج بھلا کس کا؟ پھر بھائی نے دہلی کا بغل بچہ بن کر اپنی رہی سہی عزت پر خودکش حملہ بھی تو خود ترتیب دیا جو مکمل کامیاب رہا!