آج سے سات سال پہلے جب مصر میں منتخب حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو صدر محمد مُرسی کے سامنے دو آپشن رکھے گئے ۔ایک’’ رخصت‘‘ اور دوسرا ’’عزیمت‘‘ کا آپشن تھا- یاد رہے کہ کٹھن حالات میںشریعت مطہرہ نے مومنوں کیلئے دوراستے بتائے ہیں اور دونوں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی طرف سے تجویزکردہ ہیں۔ اصول ِفقہ کے اصطلاح میں ایک راستے کانام عزیمت اور دوسرے کورخصت کہاجاتاہے ۔یعنی اضطراری حالت میں ایک مسلمان کو اپنی جان بچانے کی خاطر آسان راستہ اختیار کرنے پر بھی کوئی قدغن نہیں ہے البتہ پورے عزم اور بہادری کے ساتھ دین وایمان کی سلامتی کی خاطر جان سے گزرنا عزیمت ہے، جوکہ شریعت کی نظرمیں ایک محبوب اور پسندیدہ راستہ ہے ۔ہاں تو مصرکے سابق جمہوری صدرمحمدمُرسی کے سامنے بھی آمر فوج نے یہ دوآپشنز رکھے جس کی قیادت جنرل فتح السیسی کررہے تھے ۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب صدر محمدمُرسی سے کہاگیا کہ اڑتالیس گھنٹوں کے اندراندراپنے گھر چلے جائیں یا بھگوڑا بن کربیرون ملک جائیں ، ورنہ دوسری صورت میںکڑی سزائوں کیلئے تیار رہو۔سلام ہو محمد مُرسی کی استقامت اور حمیت پر کہ انہوں نے عزیمت کی راہ چلنے کوترجیح دے دی اور جنرل السیسی اینڈکمپنی کی طرف سے پیش کردہ ’’رخصت ‘‘والے آپشن کو ان کی منہ پر دے مارا ۔ مُرسی کو یقین تھا کہ عزیمت کی راہ چلنے والوں کی زندگی اگرچہ باقی نہیں رہ سکتی لیکن تاریخ میں اُن کے اَمر ہونے میںبھی کوئی شک نہیں۔ محمدمُرسی کے ساتھ پھر وہی ہوا جو’’ صاحب ِعزیمت‘‘ لوگوں کے ساتھ ہردورمیں ہوتارہاہے۔جو نعمان بن ثابت(امام ابوحنیفہؒ) کے ساتھ ہواتھا۔جو ہر دور میں ان لوگوں کے ساتھ ہوتارہاہے جن کے ایمان پختہ ہوتے ہیں اور اللہ کی ذات پر توکل کرکے باطل کو للکارتے رہے ہیں۔مصر کے سابق صدر محمد مُرسی کو چارمرتبہ نام نہاد مصری عدالتوں نے سزائے موت اور اڑتالیس سال قیدکی سزاسنائی ۔ذیابیطس اور بلندفشار خون کے اس مریض کونہ صرف چور، ڈاکو اور ملک دشمن قراردیاگیابلکہ انہیں جیل میں طرح طرح کی مشقتوں سے گزاراگیا ۔ 17جون 2019ء کو اس قیدی کو شیشے کے پنجرے میں بندکرکے عدالت میںلایاگیاجہاں پر دلائل دیتے ہوئے وہ گرپڑے اور اپنے خالق سے جاملے ۔ بعض اطلاعات کے مطابق محمدمُرسی کودوران قید وقتاًفوقتاً حکومت وقت کی طرف سے کم مقدار میں زہر دیا جاتاتھا جس کی وجہ سے سترہ جون کو ان کی موت واقع ہوئی ۔شہید محمدمُرسی کے سیاسی حالات اور ان کی قربانیوں کے بارے میں پچھلے چنددنوں سے اخبارات اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھا گیاہے ،لہٰذاان کے خدمات کے اوپر مزید لکھنے کی بجائے میں یہاں پراس صاحبِ عزیمت سپوت کو پروفیسر درویش درانی کی ایک شاہکار نظم نذر کرنا چاہتا ہوں جو35سال قبل غالباً انہوں نے خان عبدالصمد خان کی شہادت پران کی قبر سے مخاطب ہوکر کہی تھی۔نظم کاعنوان شاعر نے مطلقاً ’’شہید کے قبر سے‘‘رکھاہے ۔ جس کا ترجمہ ہے۔ اے لحد ! اپنی آغوش میںہمارے اس شہید کو اپنی آغوش میں ذراخیال سے رکھنا، جسے ہم آج شکستہ دل اور گھائل حالت میںتیری سپرد کررہے ہیں۔جن کو آسمان کے تاروں کے حساب سے لامتناہی زخم لگے ہیں ،یوں سمجھیے کہ ہم کہکشاں جیسے بدن کوتجھے حوالہ کررہے ہیں۔ گوکہ ہم ایسے پیراہن تجھے سپردکررہے ہیں جوصداقت اور سچائی کے پھولوں سے بھراہواتھا۔ ’’اس شہید کا اکلوتاجرم یہ تھا کہ یہ اپنے آسمان پر پرائے سورج کو رکھنا نہیں چاہتے تھے ۔ان کو اس جرم کی پاداش میں جاں سے ماراگیا کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پرتاریکی کوتاریکی اور اجالے کواجالا کہتے تھے۔اس نے اپنی زیست کی راتیں بغیر روشنی کے گزاریںلیکن دوسروں کیلئے وہ سورج تراش تراش کر روشنیاں پہنچانے کااہتمام کرتے تھے۔ ’’پھر فرعونِ وقت کے ورثا اکٹھے ہوگئے اور کہا کہ اُن کارویہ غلط اورباتیں ٹیڑھی ہیں۔شاہین کے اس بچے کے پَرنکل آئینگے جوہمارے اختیار کے فاختے کو شکار کرسکتاہے ۔یہ اگرچہ آج اکیلاہے لیکن ایک دن یہ اقتدار کوچھیننے کیلئے لشکر کشی کرے گا۔’’جھوٹے آمروں کے ان جھوٹے نعروں پرلوگ لبیک کہہ کرورغلا گئے ، اور انہوں نے ایسے مُحسن کی کمر توڑ دی جو ان کی زبوں حالی پر آنسوبہارہے تھے۔اے لحد!اب یہ تیرے پاس بے بسی اور خون میں لت پت آئے ہیں اور بڑے اہتمام واستراحت کے ساتھ اسے اپنی آغوش میں رکھنا ‘‘۔