مِیری خان جمالی ایک ایسے شخص کا نام ہے جسے ہم اُس کی زندگی میںکملا، بھولا اور دیوانہ کہتے تھے مگر وہ نام کے سمجھداروں سے زیادہ سیانا تھا، ساری زندگی اُس کی شادی نہیں ہوئی مگر وہ سب کی شادی پر خوشیوں کے رنگ بکھیرتا ، ڈھول کی تھاپ پر ایسی جھومر کھیلتا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ شادی خوشی کا میل اور ڈھول کی آواز اس کی کمزوی تھے، جہاں سے بھی یہ آواز آتی وہ جھومنے لگتا اور بیٹھے بیٹھے محو رقص ہو جاتا ۔ ہم تو اُسے پاگل سمجھتے تھے مگر وہ اتنا سمجھدار تھا کہ چیونٹی کے مارنے کو بھی پاپ سمجھتا تھا، اُس کی ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ وہ دھریجہ نگر میں ہمارا ہمسایہ تھا دھریجہ نگر تو کیا ہمارے موضع میں جہاں بھی فوتگی ہوتی وہ وہاں ضرور جاتا۔ دھریجہ نگر کے ہر ثقافتی ایونٹ پر موجود ہوتا اور خوب جھومر کھیلتا ، ایک مرتبہ اس نے خود نقارے بجائے۔ مِیری خان قریبی بستی جمالی نگر کا رہنے والا تھا، مجھے نہیں معلوم کہ اُس کی تاریخ پیدائش کیا ہے مگر میری طرح وہ بھی 60 سال کا لگتا تھا کہ اُسے میں نے بچپن سے ہی قریباً اپنے ہم عمر پایا۔ پچھلے دنوں میں دھریجہ نگر گیا تو مجھے بتایا گیا کہ مِیری خان 10 مارچ 2019ء صبح اذان کے وقت فوت ہوا ہے ، اشکبار آنسوئوں کے ساتھ دھریجہ برادری اور جمالی برادری کے افراد نے غسل دیا اور حافظ شہباز احمد پنوار نے نماز جنازہ پڑھائی اور ان کے آبائی قبرستان دوست علی شاہؒ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ میں فوراً اُس کے بھائی رشید خان جمالی جو کہ دھریجہ پبلک سکول میں چپراسی ہے ، کے پاس گیا اور اظہار تعزیت کیا۔ مِیری خان کے والد پیر بخش خان جمالی المعروف بخشی خان جمالی سادہ طبیعت اور ملنسار شخص تھے، میرے ابا حضور کے دوست تھے میں چاہتا تھا کہ ’’مِیری خان‘‘ کی ویڈیو بنے مگر میری خواہش حسرت ہی رہی ۔ میں نے بڑی بڑی شخصیات پر سینکڑوں کالم لکھے مگر پذیرائی مجھے میرے کالم ’’کمی کسبی کون؟‘‘ پر ملی ، اس سے مجھے احساس ہوا کہ غریب کا احساس زندہ ہے اور ہر بڑا آدمی چلتی پھلتی لاش کے سوا کچھ نہیں۔ میں جس شخص کے بارے میں لکھ رہا ہوں میرے علاقے کے لوگ شاید مجھے بے وقوف سمجھیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ بڑا آدمی وہ نہیں جس کے پاس کاریں، جاگیریں ، عہدے یا ڈگریاں ہوں بلکہ احساس اُسے بڑا بناتا ہے۔مِیری خان کا نام امیر بخش تھا، میرا دل کرتا ہے کہ مِیری خان کی بجائے میں اُسے پورے احترام کے ساتھ امیر بخش خان جمالی لکھوں کہ وہ ہر لحاظ سے قابل احترام تھا، لیکن علاقہ میں وہ مِیری خاں کے نام سے مشہور تھااس لئے میں اسی نام کا سہارا لے رہا ہو۔ مِیری خان کی دو چار کمزوریاں تھیں، جیسا کہ میں نے عرض کیا ایک تو نقارہ یا ڈھول اُس کی کمزوری تھی، دوسری ریڈیو پر چلنے والے گیت، تیسرا اونٹ ۔ اونٹوں کا اتنا دیوانہ تھا کہ وہ خود کو جتوال کہلوانے میں خوشی محسوس کرتا ، اُس کے پاس اپنے اونٹ تو نہیں تھے مگر ہر اُس شخص کے ساتھ بغلگیر ہوتا جس کے پاس اونٹ ہوتے، نہ وہ تنخواہ لیتا تھا نہ معاوضہ مگر وہ چرواہے کے طور پر اونٹ لیکر جنگل میں چلا جاتا ، اگر اُسے کوئی بتا دیتا کہ فلاں جگہ اونٹوں کا دنگل ہے تو وہ نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنتااور اونٹوں کے دنگل میں پہنچ جاتا چاہے اونٹوں کا میلہ کوسوں دور چولستان میں ہی کیوں نہ ہو ۔ کہتے ہیں کہ ہر ان پڑھ شخص کو کسی بھی زبان کی لغت کہا جاتا ہے مِیری خان جمالی بھی ان پڑھ تھا ، جب اونٹوں کا ذکر آتا تو وہ ترنگ میں ہوتا اور ایسے ایسے لفظ بول جاتا کہ مجھے اس کے معنی پوچھنے پڑتے ، ان میں سے ’’کوہلی‘‘اونٹوں کا محافظ، ’’اوٹھی‘‘ اونٹ چرانے والا، ’’مہاری‘‘ شتر بان، ’’لاڈو‘‘ وزن اٹھانے والا، ’’ڈکھنا‘‘ گائیڈ، ’’بُڑک ‘‘ مست اونٹ، ’’مارہا‘‘سواری اٹھانے والا، ’’توڈا ،توڈی‘‘اونٹ کا بچہ ، بچی، ’’دوآگ‘‘ دو دانت، ’’چوگہ‘‘ چار دانت ، چھِگہ چھ دانت، ’’کھپڑ‘‘ بوڑھا اونٹ ، یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں مِیری خان اونٹوں کے بارے میں کرتا، ہماری بستی میں خدا بخش گورڑہ نامی ایک شخص رہتا تھا جس کے اونٹ تھے، مِیری خان اکثر اُس کے ساتھ رہتا تھا، بستی کے ایک بزرگ امام بخش دھریجہ کی وفات ہوئی ، قبرستان میں خدا بخش گورڑہ ، غلام یٰسین کمہار،رحیم بخش پنوار و دیگر تدفین کیلئے قبر کھود رہے تھے مٹی کا تودا اوپر آن گرا جس سے غلام یٰسین کمہاراور رحیم بخش پنوار تے بچ گئے البتہ خدا بخش گورڑہ فوت ہو گیا، جس کی وفات پر مِیری خان جمالی سب سے زیادہ رویا اور اُس کے جو بین تھے وہ بھی اونٹوں کے حوالے سے تھے کہ ’’ خدا بخش توں تاں ویندا پیں، اُٹھیں دا کیا بنسے، ڈاچی دا کھیر کون ڈوہیسے ، توڈا ، توڈیکیویں کریسن‘‘۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ اچھی آواز مِیری خان کی کمزوری تھی آج سے پچیس تیس سال پہلے دیہات میں لائوڈ سپیکر کا بہت رواج تھا ، وہ شادی شادی نہیں مانی جاتی تھی جس پر لائوڈ سپیکر نہ منگوایا جاتا ، جہاں شادی اور سپیکر ہوتا مِیری خان وہاں پہلے سے پہنچا ہوتا، لائوڈ سپیکر دو دو چارچار دن اور ایک ایک ہفتہ تک بھی چلتا تھا ان تمام دنوں میں مِیری خان سپیکر والے کا معاون اور مدد گار بن جاتا اور ان کی خدمت گزاری کرتا ۔ مِیری خان سپیکر والوں کیلئے چائے ، پانی ، کھانے اُس کے ساتھ ساتھ ان کو مرد و خواتین کی طرف سے جو ’’ویل‘‘ ملتی وہ بھی مِیری خاں لے آتا اور پورے اہتمام کے ساتھ اُس کا نام لائوڈ سپیکر پر پکارتا اور جب فرمائش شروع ہوتی تو مِیری خان پورے گانے کے دوران رقص کرتا، مِیری خان کی زندگی میں شادی ، جھمراور لائوڈ سپیکر اس قدر داخل ہو گئے کہ شادی نہ بھی ہو اور دوستوں کی کچاری میں مِیری خان آ جاتا تو فرضی طور پر کہہ دیا جاتا مِیری خان یوں سمجھو کہ تمہارے ’’مسات ‘‘کزن کی شادی ہے تو کیوں نہ کچھ ہو جائے ، مِیری خان کہتا کہ میں ابھی لائوڈ سپیکر لاتا ہوںپھر فرضی طور پر مِیری خان سائیکل لے رہا ہے، شہر جا رہا ہے، لائوڈ سپیکر والی دکان پر پہنچ جاتا ہے ، لائوڈ سپیکر کا کرایہ طے کرتا ہے اور سپیکر سائیکل پر لوڈ کر کے اپنے پائوں سے سائیکل کے پیڈل گھماتا ہے پھر وہ بستی میں پہنچ جاتا ہے ، سانس لیتا ہے ، اپنے شانے کی چادر سے پسینا پونچھتا ہے ، سپیکر کی سیٹنگ کرتا ہے (فرضی طور پر) درخت پر چڑھ رہا ہے وہاں رَسے سے لائوڈ سپیکر درخت کی ٹہنی سے باندھتا ہے پھر نیچے آتا ہے ، چار پائی پر بیٹھتا ہے، بیگ سے ریکارڈر نکالتا ہے کپڑے سے صاف کرتا ہے اور مشین کے ہینڈل پر سوئی لگاتا ہے اور پھر دائیں ہاتھ کی انگلی اپنی زبان پر لگاکر لعاب سوئی کو لگاتا ہے اور ریکارڈر پر رکھ دیتا ہے پھر لائوڈ سپیکر کی مشین کا بٹن آن کر دیتا ہے ، نور جہاں کی آواز گونجتی ’’دل تانگھ تانگھ اے اللہ جوڑ سانگے ، سجنا دا ملنا مشکل مہانگ اے‘‘ ۔