بیوروکریسی کا کمال یہ ہے کہ یہ ہر حکمران کو آنے والے کل کے خوف میں زندہ رکھتی ہے۔ یوں وہ حکمران حال پر راضی ہوجاتا ہے اور اسے بدلنے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ مستقبل کے سارے سہانے خواب اس کی تقریب حلف برداری کے سٹیج تلے دفن ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اس ملک کی بوسیدہ عمارت کو رنگ و روغن کرکے، اس کی چھوٹی موٹی خرابیاں دور کرکے اسے عوام کے لیے قابل قبول بنا دوں تو میری بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ دنیا بھر میں بیوروکریسی ''مروجہ صورت حال'' (Status Quo) پر کاربند رہنے کی قائل ہوتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اگر اس میں چھوٹا سا تبدیلی کا کنکر بھی پھینکا گیا تو اس سے اٹھنے والی لہریں جھیل کے سکوت کو توڑ دیں گی۔ اسی لیے ہر حکمران جو نئے خواب لے کر اقتدار میں آتا ہے ان کے مشوروں کے بعد وہ انہیں ناقابل عمل اور افسانوی سمجھ کر مصلحت کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ بھی اب تک ایسا ہی ہوا ہے اور یہ المیہ بہت بڑا ہے۔ کیوں کہ اگر عمران خان '' مروجہ صورت حال'' کے سامنے ہتھیار ڈال کر اسی گھسی پٹی روش پر چل نکلا تو شاید اگلے کئی سال کوئی دوسرا خواب دیکھنے والا میدان سیاست میں کودنے کی جرات نہ کرسکے۔ پاکستان کو انگریز سے ورثے میں ملی ہوئی سول اور ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ مل کر ایک ایسا گروپ تشکیل دیتے ہیں جنہیں آج کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ تینوں گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں سے ایک مسلمہ مروجہ سسٹم کی پیداوار ہیں اور اسی کے تحفظ کے علمبردار۔ اس مروجہ سسٹم میں اگر کوئی ذرا سی بھی تبدیلی لانے کی کوشش کرے تو انہیں لگتا ہے کہ یہ کانچ کا گھر دھڑام سے نیچے آ گرے گا اور پھر نیا گھر تعمیر کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں بحیثیت صدر و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر وسیع اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسے چھیڑنے کی کوشش کی۔ بیوروکریسی کی ہیت ترکیبی تبدیل کی، سول سروس کی اجارہ داری توڑنے کے لئے اسے گروپوں میں تقسیم کیا، آرمی کی بالادستی ختم کرنے کے لیے کمانڈر انچیف کا عہدہ ختم کر کے چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف بنایا، بڑے زمینداروں کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات نافذ کیں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کیلئے پورے ملک کی بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا، تقریبا ڈیڑھ صدی سے قائم خالصتاً عوامی فلاح کا جذبہ رکھنے والے تعلیمی اداروں کو سرکار کے قبضے میں لے لیا۔ دوائیوں کی کمپنیوں کی منافع خوری ختم کرنے کے لیے پیٹینٹ کو ختم کرکے جنیرک سسٹم نافذ کیا۔ لیکن جیسے ہی یہ ذوالفقار علی بھٹو، صدر و چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے فولادی خول سے باہر نکل کر جمہوری وزیر اعظم کے پیکر میں آیا تو بیوروکریسی نے اس شخص کی وہ درگت بنائی کہ 1977 ء میں الیکشن کے لیے اس نے پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے ٹکٹ ڈپٹی کمشنروں اور ایس پی حضرات کی سفارشوں پر دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ان تمام تبدیلیوں سے اتفاق تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر وہ بیوروکریسی کو سمجھ لیتا تو ان میں سے اکثر تبدیلیوں کے فوائد بھی حاصل ہو سکتے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج ان میں سے ایک بھی تبدیلی ایسی نہیں جو بھٹو حکومت نے کی ہو اور اسے واپس نہ لوٹا دیا گیا ہو۔ اس سے بڑھ کر حیرت کی بات اور کیا ہوگی کہ بھٹو کی ان تمام اصلاحات کو واپس لوٹانے میں سب سے اہم کردار اسکی اپنی لاڈلی بیٹی بینظیر بھٹو اور اسکے جانثاروں پر مشتمل پاکستان پیپلزپارٹی نے ادا کیا۔ آج تمام صنعتیں واپس لوٹائی جا چکی ہیں، سول سروس پورے طمطراق سے واپس آ چکی ہے، بینک جن کے پیسوں پر حکومت نے اللے تللے کیے تھے اب دوبارہ نجی شعبے میں چلے گئے ہیں، عالمی دوا ساز کمپنیاں پھر سے برانڈ نام کے ساتھ منافع خوریاں کر رہی ہیں، چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کے باوجود فوج کے دو سربراہان ضیاء الحق اور پرویز مشرف تختہ الٹ کر بیس سال حکمرانی بھی کر چکے ہیں اور زرعی اصلاحات کا کیا کہنا، ان کو ایسے قوانین کی بھول بھلیوں میں الجھایا گیا کہ اصل زمیندار اور مضبوط ہو کر سامنے آگیا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ بھٹو کی یہ تمام اصلاحات غیر فطری تھیں تو غلط ہے۔ ان میں سے بے شمار ایسی تھی جنہیں اگر بیوروکریسی نیک نیتی سے نافذ کرنے میں ممد و معاون ہوتی تو آج معاشرہ تبدیل ہو چکا ہوتا۔ لیکن بحیثیت مجموعی بیوروکریسی نے بھٹو کو اس کی اختراعی اور نئی سوچ کا مزہ چکھانے کا ارادہ کرلیا تھا،اسی اس لئے ان کے ہاتھ میں جو ادارہ بھی آیا انہوں نے اس کو اپنے بدترین انجام تک پہنچا کر چھوڑا۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو سرکاری تحفظ مل چکا تھا، ان میں لیکچراروں کے گریڈ دیگر سرکاری افسران کے برابر ہو چکے تھے۔ سکولوں کو سرکاری بجٹ میسر ہونے لگا تھا، لیکن صرف دس سال کے اندر اندر محکمہ تعلیم کی بیوروکریسی نے اس پورے نظام تعلیم کا وہ حشر کیا کہ ان کی جگہ متبادل کے طور پر پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھلنا شروع ہوگئے۔ 1973ء تک پشاور سے کراچی تک نجی تعلیمی شعبہ منافع خوری سے نابلد تھا۔ کسی نفع و نقصان کے بغیر یہ ادارے چلائے جاتے تھے۔ لیکن جب ان عظیم تعلیمی اداروں کو قومیا کر تباہ و برباد کیا گیا تو 80ء کی دہائی میں ایک منافع خور تعلیمی شعبہ پیدا ہوگیا جس نے تعلیم عام آدمی کی دسترس سے دور کر دی۔ یہی حال ان صنعتی اداروں کا ہوا۔ گھی کارپوریشن آف پاکستان سے لے کر ٹیکسٹائل ملوں تک، جب سب کے سب بیوروکریسی کے زیرانتظام آگئے تو وہاں اقرباپروری، سیاسی بھرتیوں، رشوت اور بددیانتی نے مل کر ایسی دھماچوکڑی مچا ئی کے ایک دن تمام ادارے واپس نیلام کر دیے گئے۔ بینکوں کو سرکاری تحویل میں لینا ایک اچھا اقدام تھا۔ اس طرح آپ ایک دن میں ہی سود کے نظام کا خاتمہ کرسکتے تھے۔ ان قومیائے گئے بینکوں میں سے کوئی بنک نقصان کا سودا نہیں تھا۔ لیکن اسے ''سٹیٹس کو'' کی علمبردار بیوروکریسی نے نجی شعبے کو دے کرہی دم لیا۔ ان بینکوں نے عام آدمی کے سرمائے کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اور آج تک کر رہے ہیں اسے نجی شعبے کے استحصال کی بدترین مثال کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ دوائیوں کی کمپنیوں نے جس طرح برانڈ کے نام پر منافع خوری کا ازسر نو آغاز کروایا اس سے حالات یہاں تک آ چکے ہیں کہ دوائی اب غریب آدمی کی دسترس سے بہت دور ہو چکی ہے۔ بیوروکریسی کا کمال یہ ہے کہ یہ ہر حکمران کو آنے والے کل کے خوف میں زندہ رکھتی ہے۔ یوں وہ حکمران حال پر راضی ہوجاتا ہے اور اسے بدلنے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ مستقبل کے سارے سہانے خواب اس کی تقریب حلف برداری کے سٹیج تلے دفن ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اس ملک کی بوسیدہ عمارت کو رنگ و روغن کرکے، اس کی چھوٹی موٹی خرابیاں دور کرکے اسے عوام کے لیے قابل قبول بنا دوں تو میری بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ دنیا بھر میں بیوروکریسی ''مروجہ صورت حال'' (Status Quo) پر کاربند رہنے کی قائل ہوتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اگر اس میں چھوٹا سا تبدیلی کا کنکر بھی پھینکا گیا تو اس سے اٹھنے والی لہریں جھیل کے سکوت کو توڑ دیں گی۔ اسی لیے ہر حکمران جو نئے خواب لے کر اقتدار میں آتا ہے ان کے مشوروں کے بعد وہ انہیں ناقابل عمل اور افسانوی سمجھ کر مصلحت کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ بھی اب تک ایسا ہی ہوا ہے اور یہ المیہ بہت بڑا ہے۔ کیوں کہ اگر عمران خان '' مروجہ صورت حال'' کے سامنے ہتھیار ڈال کر اسی گھسی پٹی روش پر چل نکلا تو شاید اگلے کئی سال کوئی دوسرا خواب دیکھنے والا میدان سیاست میں کودنے کی جرات نہ کرسکے۔ پاکستان کو انگریز سے ورثے میں ملی ہوئی سول اور ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ مل کر ایک ایسا گروپ تشکیل دیتے ہیں جنہیں آج کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ تینوں گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں سے ایک مسلمہ مروجہ سسٹم کی پیداوار ہیں اور اسی کے تحفظ کے علمبردار۔ اس مروجہ سسٹم میں اگر کوئی ذرا سی بھی تبدیلی لانے کی کوشش کرے تو انہیں لگتا ہے کہ یہ کانچ کا گھر دھڑام سے نیچے آ گرے گا اور پھر نیا گھر تعمیر کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں بحیثیت صدر و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر وسیع اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسے چھیڑنے کی کوشش کی۔ بیوروکریسی کی ہیت ترکیبی تبدیل کی، سول سروس کی اجارہ داری توڑنے کے لئے اسے گروپوں میں تقسیم کیا، آرمی کی بالادستی ختم کرنے کے لیے کمانڈر انچیف کا عہدہ ختم کر کے چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف بنایا، بڑے زمینداروں کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات نافذ کیں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کیلئے پورے ملک کی بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا، تقریبا ڈیڑھ صدی سے قائم خالصتاً عوامی فلاح کا جذبہ رکھنے والے تعلیمی اداروں کو سرکار کے قبضے میں لے لیا۔ دوائیوں کی کمپنیوں کی منافع خوری ختم کرنے کے لیے پیٹینٹ کو ختم کرکے جنیرک سسٹم نافذ کیا۔ لیکن جیسے ہی یہ ذوالفقار علی بھٹو، صدر و چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے فولادی خول سے باہر نکل کر جمہوری وزیر اعظم کے پیکر میں آیا تو بیوروکریسی نے اس شخص کی وہ درگت بنائی کہ 1977 ء میں الیکشن کے لیے اس نے پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے ٹکٹ ڈپٹی کمشنروں اور ایس پی حضرات کی سفارشوں پر دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ان تمام تبدیلیوں سے اتفاق تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر وہ بیوروکریسی کو سمجھ لیتا تو ان میں سے اکثر تبدیلیوں کے فوائد بھی حاصل ہو سکتے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج ان میں سے ایک بھی تبدیلی ایسی نہیں جو بھٹو حکومت نے کی ہو اور اسے واپس نہ لوٹا دیا گیا ہو۔ اس سے بڑھ کر حیرت کی بات اور کیا ہوگی کہ بھٹو کی ان تمام اصلاحات کو واپس لوٹانے میں سب سے اہم کردار اسکی اپنی لاڈلی بیٹی بینظیر بھٹو اور اسکے جانثاروں پر مشتمل پاکستان پیپلزپارٹی نے ادا کیا۔ آج تمام صنعتیں واپس لوٹائی جا چکی ہیں، سول سروس پورے طمطراق سے واپس آ چکی ہے، بینک جن کے پیسوں پر حکومت نے اللے تللے کیے تھے اب دوبارہ نجی شعبے میں چلے گئے ہیں، عالمی دوا ساز کمپنیاں پھر سے برانڈ نام کے ساتھ منافع خوریاں کر رہی ہیں، چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کے باوجود فوج کے دو سربراہان ضیاء الحق اور پرویز مشرف تختہ الٹ کر بیس سال حکمرانی بھی کر چکے ہیں اور زرعی اصلاحات کا کیا کہنا، ان کو ایسے قوانین کی بھول بھلیوں میں الجھایا گیا کہ اصل زمیندار اور مضبوط ہو کر سامنے آگیا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ بھٹو کی یہ تمام اصلاحات غیر فطری تھیں تو غلط ہے۔ ان میں سے بے شمار ایسی تھی جنہیں اگر بیوروکریسی نیک نیتی سے نافذ کرنے میں ممد و معاون ہوتی تو آج معاشرہ تبدیل ہو چکا ہوتا۔ لیکن بحیثیت مجموعی بیوروکریسی نے بھٹو کو اس کی اختراعی اور نئی سوچ کا مزہ چکھانے کا ارادہ کرلیا تھا،اسی اس لئے ان کے ہاتھ میں جو ادارہ بھی آیا انہوں نے اس کو اپنے بدترین انجام تک پہنچا کر چھوڑا۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو سرکاری تحفظ مل چکا تھا، ان میں لیکچراروں کے گریڈ دیگر سرکاری افسران کے برابر ہو چکے تھے۔ سکولوں کو سرکاری بجٹ میسر ہونے لگا تھا، لیکن صرف دس سال کے اندر اندر محکمہ تعلیم کی بیوروکریسی نے اس پورے نظام تعلیم کا وہ حشر کیا کہ ان کی جگہ متبادل کے طور پر پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھلنا شروع ہوگئے۔ 1973ء تک پشاور سے کراچی تک نجی تعلیمی شعبہ منافع خوری سے نابلد تھا۔ کسی نفع و نقصان کے بغیر یہ ادارے چلائے جاتے تھے۔ لیکن جب ان عظیم تعلیمی اداروں کو قومیا کر تباہ و برباد کیا گیا تو 80ء کی دہائی میں ایک منافع خور تعلیمی شعبہ پیدا ہوگیا جس نے تعلیم عام آدمی کی دسترس سے دور کر دی۔ یہی حال ان صنعتی اداروں کا ہوا۔ گھی کارپوریشن آف پاکستان سے لے کر ٹیکسٹائل ملوں تک، جب سب کے سب بیوروکریسی کے زیرانتظام آگئے تو وہاں اقرباپروری، سیاسی بھرتیوں، رشوت اور بددیانتی نے مل کر ایسی دھماچوکڑی مچا ئی کے ایک دن تمام ادارے واپس نیلام کر دیے گئے۔ بینکوں کو سرکاری تحویل میں لینا ایک اچھا اقدام تھا۔ اس طرح آپ ایک دن میں ہی سود کے نظام کا خاتمہ کرسکتے تھے۔ ان قومیائے گئے بینکوں میں سے کوئی بنک نقصان کا سودا نہیں تھا۔ لیکن اسے ''سٹیٹس کو'' کی علمبردار بیوروکریسی نے نجی شعبے کو دے کرہی دم لیا۔ ان بینکوں نے عام آدمی کے سرمائے کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اور آج تک کر رہے ہیں اسے نجی شعبے کے استحصال کی بدترین مثال کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ دوائیوں کی کمپنیوں نے جس طرح برانڈ کے نام پر منافع خوری کا ازسر نو آغاز کروایا اس سے حالات یہاں تک آ چکے ہیں کہ دوائی اب غریب آدمی کی دسترس سے بہت دور ہو چکی ہے۔ بھٹو کی انقلابی اصلاحات کامیاب ہوسکتی تھیں، لیکن اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی اس نے بیوروکریسی کے مضبوط ڈھانچے کو انہی کے اپنے ہاتھوں کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اپنا گھر اوراپنی پناہ گاہ تو کوئی چڑیا بھی اپنے ہاتھوں سے برباد نہیں کرتی۔ بھٹو کی زمیندارانہ یعنی فیوڈل سوچ نے جو رویہ اختیار کیا، اس نے بیوروکریسی کو اس کے مد مقابل لا کر کھڑا کر دیا۔ اس اکھاڑے میں جب بیوروکریسی کسی کے سامنے مقابلے کے لئے اترتی ہے تو جیت اسی کا مقدر ہوتی ہے۔ سارے داؤپیچ اس کے پاس ہوتے ہیں۔ تمام اصول و قوائد وہ خود ہی طے کرتی ہے۔ اس کا وار واضح نہیں ہوتا بلکہ وہ خاموشی سے اپنے مدمقابل کے بنائے گئے نئے سسٹم کی جڑوں میں خود دیمک کی طرح گھس کراسے کھوکھلا کر دیتی ہے اور ایک دن وہ دھڑام سے گر جاتا ہے۔بھٹو کا یہ نیا نظام اسی طرح دیمک زدہ ہو کر مر گیا۔ بھٹو کے بعد ایک دفعہ پھر اسی سٹیبلشمنٹ میں سے ایک حصے کو ملٹری بیوروکریسی نے اس ''سٹیٹس کو'' کو پرویز مشرف کی قیادت میں معمولی سا بدلنے کی کوشش کی مگر آج جنرل تنویر نقوی کہیں نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی اس کا این آر بی اور ناظمین کا نظام حکومت۔ سب ناکامی کی ذلت میں ڈوب چکے ہیں۔ عمران خان ان
۔        دو تجربوں کے بعد بیس سال سے تبدیلی کے نعرے لگاتا اس میدان میں آیاہے، اکھاڑے میں کودا ہے لیکن بیوروکریسی کی ایک ہی چال میں چاروں شانے چت ہو چکا ہے

(جاری ہے)