وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ امریکی دورہ کیسا رہا؟امریکہ کی سرزمیں پر وائٹ ہاوس میں صدرڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے لے کر پاکستانی کمیونٹی سے مخاطب ہونے اور میڈیا کو دیئے گئے انٹرویوز میں عمران خان نے اپنے کارڈز صحیح یاغلط کھیلے ؟وغیرہ وغیرہ۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان دوسرے ہرپاکستانی وزیراعظم کے مقابلے میں عالمی فورم پر بولڈ اور آوٹ سپوکن ثابت ہوئے ہیں۔اس دوران ان کے چہرے پرکبھی پریشانی اور جھجھک کے آثارنمودار ہوتے ہیں اور نہ ہی بات کرنے میں انہیں کوئی دقت پیش آتی ہے ۔مغرب کے حوالے سے شاید ان کی اس بولڈنیس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر طویل قیام کے دوران وہ وہاں کے لوگوں کے مزاج سے کافی واقف ہوچکے ہیں ۔بائیس جولائی کوصدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاوس میںہونے والی ملاقات میں بھی وہ بہت پراعتماد اور ہشاش بشاش نظرآئے۔معذرت خواہانہ لہجے میں بات کرنا تو کُجا ، کیمروں کے سامنے بات چیت کے دوران انہوں نے ساتھ بیٹھے امریکی صدرکانام لیتے وقت’’ مسٹرپریذیڈنٹ‘‘ کا لاحقہ بھی استعمال نہیں کیابلکہ آخرتک اسے ٹرمپ کہتے رہے۔اس ملاقات میں اگرچہ مسئلہ کشمیر بھی زیربحث آیا اورڈونلڈ ٹرمپ نے اس بارے میں کردار ادا کرنے کاذکربھی کیا لیکن غالب گمان یہی ہے کہ بندکمرے میں ہونے والی میٹنگ میں ان دونوں رہنماؤں کا بنیادی فوکس افغان مسئلہ اور ایف اے ٹی ایف رہاہوگا۔ افغانستان سے اپنی افواج کونکلنے میں جتنی جلدبازی اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ دکھارہے ہیں،اٹھارہ سال میںشاید کسی دوسرے امریکی صدر نے اپنی افواج نکالنے میں اتنی بیتابی دکھائی ہو۔پچھلے سال ستمبر سے اب تک عرب ملک قطرمیں امریکہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سات راونڈز مکمل کرچکا ہے جوکہ امریکہ کے اس مسئلے کو نمٹانے میں جلدبازی کی واضح دلیل ہے۔دوسری طرف امریکہ کی مسلسل یہ کوشش یہ رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے طالبان کو اشرف غنی حکومت کے ساتھ بات چیت پر راضی کیاجائے تاکہ دنیا ان کے انخلا کو زیادہ رسوائی سے تعبیر نہ کرسکے، لہٰذا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں امریکہ کے پاس پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور پاکستانی حکومت سے بہتر کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔امریکہ یہ بھی سمجھتاہے کہ ماضی میں پاکستان میں بننے والی حکومتیں ایک پیچ پر کبھی نہیں رہی تھیں اس لئے پاکستان سے اپنی بات منوانا کافی مشکل تھا، لیکن اب کی بار امریکہ کو کامل یقین ہے کہ پاکستان میں اس وقت ’’یک جاں دوقالب فوج اور سویلین حکومت‘‘ سے اپنی بات منوانے میں کوئی اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔جس طرح ٹرمپ انتظامیہ کو افغان مسئلے کو نمٹانے میں پاکستان کی ضرورت ہے اسی طرح پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ سے بچانے میں امریکی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس اکتوبر میں ہونے والا ہے جس میں پاکستان کوکل اڑتیس ارکان میں سے کم ازکم پندرہ ارکان کی حمایت درکار ہوگی ۔بلیک لسٹ ہونے کی صورت میں پاکستان دہشتگردوں کا مالی سہولت کار ڈکلیئرہونے کے علاوہ اس کی بین لاقوامی امداد بند ہونے اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہونے کا قوی خدشہ ہے ۔ایف اے ٹی ایف میں امریکی تعاون کے علاوہ بھی اس وقت پاکستان کواپنی خراب معاشی صورتحال اورکشمیر کے مسئلے پربھارت کی طرف سے چیلنجزدرپیش ہیں جس پر پاکستان کو امریکہ کا تعاون حاصل کرنا انتہائی ناگزیرہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے علاوہ وزیراعظم عمران نے امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں امریکی مالی امداد نہ لینے اور برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی بات کی ۔ اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کا عندیہ دینا، افغان طالبان کو غنی حکومت سے بٹھانے کیلئے خود طالبان سے ملنے کے عزم کا اظہار کرنا اور مسئلہ کشمیر کے حل پرزوردیناان کی کامیاب انٹرویو کی واضح مثالیں ہیں۔ سردست اتناکہا جاسکتاہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے طویل تعطل کے بعد ازسرنو تعلقات کی بحالی میں یہ ملاقات ایک اچھی پیش رفت ہے جس سے پاکستان آنے والے وقتوں میںبڑے فوائد اٹھا سکتا ہے ۔