ہمیں لاحق خطرہ بھارت، افغانستان نہیں بلکہ غیر ملکی فنڈز پر پلنے والی وہ مخلوق ہے جو ان ممالک سے ٹینشن کے ہر موقع پر کورس کی شکل میں گاتے ہوئے کہتی ہے۔ "ہمیں اپنے کرتوتوں پر بھی غور کرنا چاہئے، یہ ممالک ویسے ہی ہمارے خلاف تو نہیں ہوسکتے" چلئے ان ممالک کے حوالے سے اپنے تنازعات کی جڑ میں جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کرتوت ہمارے ٹھیک نہیں یا ان کے جن کی آپ قوالی گا رہے ہیں۔ پہلے نمبر پر بھارت کو دیکھ لیجئے. بھارت سے ہماری دشمنی کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ ڈوگرہ مہاراجہ لاکھوں کشمیریوں کو بھارت کی غلامی میں دینے کے لئے نہرو کے نام خفیہ خط لکھ دیتا ہے اور بھارت وہاں فوج اتار کر قبضہ کر لیتا ہے۔ ہم جوابی کارروائی کو پہنچ کر ایک بڑا حصہ آزاد کرا لیتے ہیں لیکن زیادہ بڑا حصہ بھارت کے ہی قبضے میں رہ جاتا ہے۔ ہماری جانب سے کشمیر کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی یہ جنگ کسی جنرل ضیاء الحق نہیں بلکہ قائد اعظم کے حکم پر ہوتی ہے۔ سو جو لوگ پاکستان کو سیکیورٹی سٹیٹ قرار دیتے ہیں وہ یہ بھی بتایا کریں کہ اس کی بنیاد کیسے پڑی ؟ بھارت اقوام متحدہ میں استصواب رائے کا وعدہ کرکے مکر جاتا ہے اور خود اقوام متحدہ بھی اپنی قراردادیں مستقل بنیاد پر نظر انداز کرنا شروع کردیتی ہے جس سے مسئلہ کشمیر آگے چل کر ہماری مستقل دشمنی کی بنیاد بنتا نظر آتا ہے۔ اب دیسی لبرلز سے سوال یہ بنتا ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی ہو خواہ فلسطین پالیسی دونوں قائد اعظم کی ترتیب دی ہوئی ہیں۔اس پر وہ کیا کہیں گے؟ اب آجائیے افغانستان کی جانب۔ جب پاکستان قائم ہونے لگتا ہے تو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) واحد علاقہ ہوتا ہے جس کے عوام سے ریفرینڈم کے ذریعے پوچھا جاتا ہے کہ آپ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ؟ اس ریفرینڈم میں 99 فیصد سے زائد ووٹر پاکستان کے حق میں ووٹ دیدیتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود افغانستان یہ پخ ڈال دیتا ہے کہ یہ ہمارا علاقہ ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی ممبرشپ کے لئے قرارداد پیش ہوتی ہے تو پوری دنیا سے افغانستان واحد ملک ہوتا ہے جو پاکستان کے خلاف ووٹ دے کر گویا یہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو بطور ریاست قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ 27 سال تک افغانستان میں عسکری ٹریننگ سینٹرز چلاتا ہے جہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ دہشت گردی پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا سکیں اور پھر یہ دہشت گردی ہوتی بھی چلی جاتی ہے۔ اس دوران ہماری جانب سے افغانستان کو ایک گولی کا بھی ردعمل نہیں ملتا لیکن 1975ء میں آ کر ذوالفقار علی بھٹو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ افغانستان کو اسی کی زبان میں جواب دیئے بغیر بات نہیں بنے گی۔ چنانچہ حکمت یار اور احمد شاہ مسعود وغیرہ منظر عام پر نظر آنے لگتے ہیں۔ کیا آپ اسی بات کو "ہمارے کرتوت" کہہ رہے ہیں کہ ہم 27 سال تک افغانستان کی دہشت گردی کو بھگتتے رہے اور خاموش رہے ؟ بدنیتی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ پاک افغان تعلقات کی تاریخ 1979ء سے شروع ہوتی ہے جب جہاد افغانستان باقاعدہ شروع ہوا۔ کیا آپ میں یہ جرات ہے کہ پاک افغان تعلقات کی 1947ء سے 1979ء تک کے عرصے کو بھی زیر بحث لاسکیں ؟ کیا آپ منظور پشتین اور اس کے "لروبر" تشریح کرنا پسند کریں گے ؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کن خوبیوں کے سبب افغانستان میں سرکاری مہمان ہوتے ہیں ؟ افغانستان کے حوالے سے تو تاریخ اور حقائق کے ساتھ کھلواڑ آپ کرتے ہیں اور کرتوت پاکستان کے پالیسی سازوں کے ٹھیک نہیں ؟ نائین الیون سے چند ماہ قبل ایک امریکی کانگریس مین نے بیان دیا تھا کہ "پاکستانی ڈالر کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں" اس بیان پر پاکستان میں شدید مظاہرے ہوئے تھے لیکن کانگریس مین نے یہ بات اسی لئے کہی تھی کہ ہماری صفوں میں کچھ لوگ پائے جاتے ہیں جو ڈالر کے لئے ملک کو بھی بیچنے سے باز نہیں آتے۔ جو تنازعات میں دشمن کے وکیل بن جاتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ بھاڑے کے یہ پیادے "دیسی لبرلز" کے سوا کوئی نہیں جو انٹرنیشنل این جی اوز کے پلیٹ فارمز سے انہی سرگرمیوں کے لئے بھرتی کئے جاتے ہیں !