نسلی اعتبار سے ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی ہندو تھے اوران کا سیاسی رشتہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی ) سے تھا۔وہ بہت کم عرصے کیلئے دومرتبہ ہندوستان کے وزیراعظم رہے لیکن تیسری مرتبہ انہوں نے پانچ سال کی مدت پوری کردی ۔واجپائی شاعربھی تھے اورسچ یہ ہے کہ ان کاشمارہندوستان کے قد آور رہنماوں میں ہوتاتھا۔کشمیرکا مسئلہ اگرچہ انہوں نے اپنی زندگی میں حل نہیں کیا لیکن ان کے دل میں اس قابل رحم قوم کیلئے درد ضرور تھا۔وہ سمجھتے تھے کہ کشمیری کے لوگ انسان بھی ہیں ، کشمیری بھی ہیں اور جمہوریت کے حقدار بھی ۔18اپریل 2003ء کو سری نگر کے دورے کے موقع پرکشمیر کے بارے میں ان کا یہ تاریخی جملہ ’’کشمیر کامسئلہ کشمیریت، انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا‘‘ یہ گواہی دیتاہے کہ وہ اس دیرینہ مسئلے کا ایک معقول اور انسانی اقدار پر مبنی حل چاہتاتھا۔ واجپائی پچھلے سال 16 اگست کوترانوے سال کی عمرمیں انتقال کرگئے ۔آج کل واجپائی کی جماعت ہی کے رکن نریندرامودی ہندوستانی سیاست اور حکومت پر چھائے ہوئے ہیں۔جس واجپائی کا خواب کشمیر کے بارے میں یہ تھاکہ یہ مسئلہ ’’انسانیت ، کشمیریت اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق حل کیاجائے گا ، آج نریندرا مودی نے ان کے سب خوابوں پر پانی پھیر دیا۔میں سمجھتاہوں کہ مودی کی تنگ نظری پر مبنی سیاست ، انتہاپسندانہ رویے اور احمقانہ فیصلوں سے مرحوم اٹل بہاری واجپائی کی روح بہت مایوس ہوگی۔اورمجھے یقین ہے کہ جموں اور کشمیر کے بارے میں مودی کے حالیہ فیصلے کی خبر سن کر مرحوم واجپائی کی روح بری طرح کانپ اٹھی ہوگی۔نریندرامودی اس وقت دوسری مرتبہ بھارت کے وزیراعظم کے عہدے پرفائز ہیں۔ریاست جموں وکشمیر کی مخصوص حیثیت پر کلہاڑ چلا کر مودی نے نہ صرف کشمیریوں کے انسان اور کشمیری ہونے کی نفی کی بلکہ اس فیصلے سے انہوں نے ہندوستانی جمہوریت کو بھی داغدار کردیا۔ریاست جموں وکشمیرکو بھارتی آئین کی آرٹیکل 370اور35اے کے تحت خصوصی اختیارات حاصل تھے ۔مثال کے طور پربھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی ریاست ہونے کے باوجود جموں وکشمیر کو اپنا الگ آئین بنانے کا حق حاصل تھا،کشمیری باقاعدہ طور پر اپنا مخصوص پرچم رکھنے کا استحقاق رکھتے تھے اوربھارتی صدر یاست جموں وکشمیر کے آئین معطل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔اسی طرح اس آرٹیکل کے تحت بھارت کی مرکزی حکومت، جموں وکشمیرحکومت کی توثیق کے بغیر وہاں پر مواصلاتی ، خارجی اور دفاعی امور کے علاوہ باقی امور پر بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں کرسکتی تھی۔اس آرٹیکل کی روسے بھارت کی مرکزی حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ ریاست جموں وکشمیر میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکے۔دوسری طرف بھارتی آئین میں سے آرٹیکل 35اے کا خاتمہ کرکے مودی سرکار نے کشمیریوں سے ان کی الگ شناخت کا حق بھی چھین لیا اور ان تمام نان کشمیریوں کیلئے وہاں پر غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے کی راہ ہموار کردی جو اس سے پہلے ممکن نہیں تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ جموں وکشمیر،کشمیریوں کی سرزمیں تھی اور تقسیم ہند کے وقت راجہ ہری سنگھ اس کے حکمران تھے ۔ تقسیم کے وقت راجہ سنگھ نے پہلے خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا تاہم بعد میں وہ مشروط طور پر بھارت سے الحاق پر آمادہ ہوئے تھے۔ راجہ ہری سنگھ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ انہوں نے کشمیر کے یہ قوانین تقسیم ہند سے پندرہ برس قبل بنائے تھے اور پھر یہی قوانین1954 ء میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے ہندوستانی آئین کا حصہ بنے۔کشمیریوں کے انسانی جمہوری حقوق اور ان کی کشمیریت کی نفی کرکے بھارتی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو ہندوتوا پر جنون کی حدتک یقین رکھنے والاسیاستدان ثابت کردیا۔مظلوم کشمیریوں کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈال کر مودی سرکار نے ہندوستانی جمہوریت کے اوپر بھی سوالات کھڑے کردیئے اور ہندوستانی لبرل ازم کا جنازہ بھی نکال دیا۔تین سال پہلے2016 ء کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پرانہوں نے یہ دہائی دی تھی کہ’’ جب اٹل بہاری واجپائی ہندوستان کے وزیراعظم تھے تو انہوں نے انسانیت ، کشمیریت اور جمہوریت کی راہ کو اپنایاتھا اور ہم بھی اسی راستے پر چلیں گے ‘‘۔پچھلے سال مودی نے پھر یوم آزادی کے موقع پریہ عہد کیاکہ ’’اٹل جی انسانیت ، کشمیریت اور جمہوریت کا کہہ رہے تھے لہٰذا کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی منشاء کے مطابق حل کیاجائے گا‘‘۔لیکن پیرپانچ اگست کو ریاست جموں وکشمیر کے مخصوص درجے کو بیک جنبش قلم ختم کرکے مودی سرکار نے مکر وفریب اور دغاباز سیاست کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ۔کہاں ہے انسانی حقوق کی علمبردار اقوام متحدہ ؟اگر واقعی یہ ادارہ اپنے آپ کو حیات سمجھتاہے تو انگڑائی لینے سے کتراکیوں رہاہے ؟ کیا مظلوم کشمیریوں کے زخموں پرمرہم رکھنے کا وقت اب بھی آنہیں پہنچا ہے ؟