گزشتہ روز سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے ملتان میں سیمینار منعقد ہوا۔ موضوع تھا ’’صوبے کا وعدہ اور حکومتی اقدامات‘‘ سیمینار سے وسیب کے رہنمائوں دانشوروں نے خطاب کیا۔ گفتگو کرنے والوں میں پروفیسر شوکت مغل، ملک اللہ نواز وینس، مہر مظہر کات، اجالا لنگاہ، ملک جاوید چنڑ ایڈووکیٹ، رانا ذیشان نون و دیگر شامل تھے مقررین نے کہا تحریک انصاف نے صوبے کے نام پر ووٹ لیے اور سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ ہوامگر وہ وعدہ آج بھی عنقا ہے اور وعدے کی تکمیل کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب کے ووٹوں سے آج وہ مرکز اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں برسراقتدار ہے، تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبے کے نام سے متعدد کمیٹیاں تشکیل دیں مگر آج تک کسی ایک بھی کمیٹی کا اجلاس نہیں ہوا، حکومت نے صوبے کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر سب سول سیکرٹریٹ کا اعلان کر دیااور سب سول سیکرٹریٹ کا اتنا چرچہ ہوا کہ وسیب کے لوگوں نے سمجھا کہ ابھی چند ہی لمحوں میں سول سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے والا ہے ،وسیب کے لوگ تھوڑی دیر کیلئے مطمئن ہو گئے کہ چلو جو سہولت ملتی ہے اسے حاصل کر لیا جائے، حکومت نے اعلان کیا کہ یکم جولائی کو سب سول سیکرٹریٹ فنگشنل ہو جائے گا، انتظار کرتے کرتے وہ گھڑی بھی آپہنچی کہ یکم جولائی کے آنے میں اب چند دن باقی ہیں مگر ابھی تک نہ تو یہ بتایا گیا ہے کہ سب سول سیکرٹریٹ کہاں بنے گا، کن افسران کی تعیناتیاں ہوں گی؟ سب سول سیکرٹریٹ کے رولز اوراختیارات کا بھی ابھی تک کسی کو پتہ نہیں، اخبارات میں وسیب کی مقامی جماعتوں کی طرف سے ہر آئے روز خبریں شائع ہو رہی ہیں، احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، مگر حکومت اس مسئلے پر خاموش ہے۔ تقریب میں متعدد جماعتوں کے سربراہوں اور عمائدین نے اظہار خیال کیا، تقریب کے میزبان راقم الحروف نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا صوبے کے قیام کیلئے عذر دیا جاتا رہا کہ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں، اس لئے ہم سردست صوبہ نہیں بنوا سکتے، سوال یہ ہے کہ اگر صوبے کیلئے صوبائی اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں تو کیا سب سول سیکرٹریٹ کیلئے بھی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے؟ حکومت کی اس بات سے پیپلز پارٹی دَور کے وہ زخم تازہ ہو گئے جب سابق صدر آصف زرداری نے وزیر اعظم ہائوس ملتان میں آکر اعلان کیا کہ چونکہ ہمارے پاس صوبائی اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں مگر ہم سرائیکی بینک کے قیام کا اعلان کرتے ہیں، پورے ملک میں اس کی شاخیں ہوں گی، اس سے کاروباری مفاد کے ساتھ ساتھ وسیب کو شناخت حاصل ہو گی، افسوس کہ یہ اعلان صرف اعلان ہی رہا حالانکہ صدر مملکت کے اعلان کو صدارتی فرمان کا نام دیا جاتا ہے اور اُس کی تکمیل ضروری ہوتی ہے، یہ پیپلز پارٹی کا کردار تھا جبکہ (ن) لیگ نے 2013ء کے الیکشن میں اپنے پارٹی منشور میں صوبے کا وعدہ شامل کیا اور اسی نعرے کی بنیاد پر الیکشن جیتا، اُسے مرکز اور صوبے میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل تھی مگر اُس نے صوبہ نہ بنایا، وسیب کے کروڑوں افراد سے مذاق یہ ہو رہا ہے کہ کوئی اسمبلیوں میں اکثریت نہ ہونے کا عذر تراشتہ ہے تو کوئی اکثریت ہونے کے باوجود صوبہ نہیں بناتا حالانکہ انتظامی صوبے کی بات ملک کی تمام پارٹیوں کے منشور میں شامل ہے اور وہ صوبے کے قیام کا دم بھرتی ہیں، اس کے باوجود صوبہ تو کیا حکمران سب سول سیکرٹریٹ بھی دینے کیلئے تیار نہیں جو کہ وسیب کے کروڑوں انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ خود ان جماعتوں کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اہمیت کے حامل موضوع پر منعقد کئے گئے سیمینار سب سول سیکرٹریٹ کے مسئلے پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، خصوصاً میں یہ کہوں گا کہ وسیب میں پیپلز پارٹی، (ن) لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی ود یگر جتنی بھی جماعتیں ہیں اُن کے اکابرین کو متحد ہو کر صوبے کیلئے آواز بلند کرنی چاہئے۔ صوبے اور سب سول سیکرٹریٹ کے مسئلے کو جان بوجھ کر الجھایا گیا ہے، ملتان صوبہ اور بہاولپور صوبہ کی تحریکیں وسیب کو ایک دوسرے سے لڑانے کے سوا کچھ نہیں۔ پنجاب کی طاقتور بیورو کریسی، صوبے اور سب سول سیکرٹریٹ کے مسئلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، دیکھنا یہ ہے کہ خود کو طاقتور کہنے والے عمران خان کتنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں، سرائیکستان تھنکر ونگ کے مسیح اللہ خان جام پوری نے کہا کہ صوبے اور سیکرٹریٹ کے مسئلے کو بہاولپور کے نام سے خراب کیا جا رہا ہے اور جو لوگ اس مسئلے کو خراب کر رہے ہیں اُن کا بہاولپور سے تعلق نہیں، اُن کی حیثیت ایک مداخلت کار کی ہے اور وہ بہاولپور میں دَر اندازی کرکے نہ صرف یہ کہ صوبے کے مسئلے کو خراب کر رہے ہیں بلکہ اہل بہاولپور سے بھی دشمنی کا باعث بن رہے ہیں کہ وہ بہاولپور جس کی صوبہ اور قومی شناخت میں بہت ہی اہم کردار تھا اُس کو وہ اب وسیب دشمنی کے زمرے میں لے گئے ہیں، انہیں چند لوگوں کی وجہ سے بہاولپور کے عوام والے شرمسار بھی ہیں اور پریشان بھی جبکہ صوبہ مخالف لوگ بغلیں بجا رہے ہیں۔ خاتون سیاسی رہنما نے کہا کہ تحریک انصاف کے دو دھڑوں کی لڑائی میں وسیب کے لوگ مارے جا رہے ہیں، جہانگیر ترین کہتے ہیں کہ دارالحکومت میرے رقبے لودھراں میں قائم ہو جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی شاید چاہتے ہیں کہ ملتان میں دارالحکومت بنے، ترین صاحبان کا سیکرٹریٹ کے معاملے میں تجربہ پرانا ہے، ایوب خان بھی ترین تھا، اُس نے بھی پورے ملک کی مخالفت کے باوجود وفاقی دارالحکومت اپنے ایبٹ آباد کے نزدیک اسلام آباد میں بنوایا اور مفاد حاصل کئے، اب جہانگیر ترین بھی یہی کچھ چاہتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ وسیب کے کروڑوں انسانوں کا قصور کیا ہے؟ یہ لوگ صوبہ کیوں نہیں بننے دے رہے؟