بنو عباس کے خلیفہ منصور اور اس کی بیوی حرہ خاتون کے مابین دوران گفتگو تلخی پیدا ہوگئی۔ اسے شکایت تھی کہ خلیفہ انصاف نہیں کرتا۔ منصور نے ا س بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی کو منصف مقرر کرنے کی تجویز پیش کی۔ حرہ خاتون نے امام ابوحنیفہؒ کا نام تجویز کیا۔ منصور نے اس وقت آپ کو دربار میں طلب کرلیا۔ حرہ خاتون پردے میں ہمہ تن گوش ہوگئیں۔ منصور نے پوچھا … شرع کے اعتبار سے ایک مرد کتنے نکاح کرسکتا ہے؟ چار … امام نے جواب دیا … مگر تھوڑے توقف کے بعد بولے … یہ اجازت اس کے لیے ہے جو عدل و انصاف پر قدرت رکھتا ہو ورنہ ایک سے زیادہ شادیاں مناسب نہیں۔ منصور خاموش ہوگیا۔ حرہ خاتون نے آپ کے لیے انعام بھیجا تو آپ نے واپس بھجواتے ہوئے کہا یہ میرا دینی فریضہ تھا … اس میں کوئی دنیاوی غرض نہیں تھی۔ خلیفہ منصور نے آپ کو زنجیریں پہنا کر زنداں کے حوالے کردیا۔ آخرکار خلیفہ نے آپ کو زہر دے دیا، جیسے ہی زہر کا اثر محسوس ہوا آپ سجدے میں چلے گئے اور کہنے لگے ’’اے اللہ! تیرہ بندہ نعمان حاضر ہے‘‘ اور جان دے دی۔ امام مالکؒ حسب اور نسب دونوں کے اعتبار سے ایک معزز عرب تھے۔ آپ کی ولادت مدینہ میں ہوئی۔ اس شہر رسولؐ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جسے سن کر لوگ حیران رہ گئے۔ مدینہ منورہ میں ایک عورت انتقال کرگئی۔ پیشہ ور غسال مرنے والی کو نہلا رہی تھی کہ اچانک اس نے پاس کھڑی خاتون سے کہا کہ مرحومہ ایک بدکار عورت تھی۔ ابھی وہ یہ کہہ ہی رہی تھی کہ اس کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم سے چپک گیا۔ بڑی کوششوں سے ہاتھ جدا نہ ہوا تو ہل چل مچ گئی۔ علماء سے رجوع کیا گیا مگر سبھی بے بس نظر آئے۔ میت کی تدفین ناممکن ہوگئی۔ کسی نے کہا کہ امام مالکؒ سے رجوع کرنا چاہیے۔ جواب آیا بڑے بڑے عمر رسیدہ جواب نہ دے سکے وہ تو ابھی نوجوان ہیں۔ کسی نے جواب دیا عقل عمر کے پیمانے سے معتبر نہیں ہوتی۔ چنانچہ یہ مسئلہ امام مالکؒ کے سامنے پیش کیا گیا۔ امام نے کچھ توقف اور غور کے بعد فرمایا … غسالہ نے مرنے والی عورت کو ایسا آزار پہنچایا ہے جسے خدا پسند نہیں کرتا۔ غسالہ سے دریافت کرو کہ اس نے کیا کیا ہے؟ غسالہ سے استفسار کیا گیا تو اس نے فوراً اعتراف کرلیا کہ اس نے مرحومہ پر بدکاری کی تہمت لگائی تھی۔ امام مالکؒ سے رجوع کیا گیا تو آپ نے فرمایا ’’مرنے والی پارسا عورت تھی۔ خدا کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ دنیا کی نظر میں اس کی پاکبازی داغدار ہو اس لیے خدا نے غسالہ کو تماشا بنادیا۔ غسالہ کے جسم پر سو درے لگائو۔ ہاتھ الگ ہوجائے گا۔‘‘ درے لگائے گئے۔ جیسے ہی سزا پورئی ہوئی غسالہ کا ہاتھ مرحومہ کے جسم سے علیحدہ ہوگیا۔ ایک تیرہ سالہ بچہ محراب حرم کے نیچے کھڑا لوگوں سے کہہ رہا تھا …اے شام والو! …اے عراق والو!… جو کچھ مجھ سے پوچھنا ہے ، پوچھ لو۔ بڑی سحر انگیز آواز تھی۔ کیا عمر تھی؟ کیا دعویٰ تھا؟ بچے پر سوالات کی بارش کردی گئی مگر وہ بڑے اعتماد سے جواب دیتا رہا۔ پھر ایک دن اس بچے کی تقریر سننے کے لیے فقیہوں اور محدثوں کے قلندر حضرت سفیان ثوریؒ تشریف لائے۔ اس مرد آزاد کو آتا دیکھ کر ہجوم میں ہل چل مچ گئی۔ سفیان ثوریؒ بچے کے پاس جاکر ٹھہر گئے۔ فرزند قریش کی زبان سے فصاحت و بلاغت کا آبشار جاری تھا۔ لہجے کے گداز سے لوگوں کے دل پگھلے جاتے تھے۔ سفیان ثوریؒ کہنے لگے ’’خدا کی قسم! اگر انسانی عقل کا وزن کیا جائے تو نصف دنیا کی عقل پر اس بچے کی عقل بھاری ہوگی‘‘۔ یہ نابغہ روزگار بچہ امام شافعیؒ تھے۔ امام شافعیؒ ماہ رجب میں 150ھ کی اس رات کے آخری حصے میں پیدا ہوئے جس رات کی ابتدائی ساعتوں میں امام ابوحنیفہؒ کا وصال ہوا تھا۔ تاریخ کے بطن میں رقم ہے کہ امام شافعیؒ تین سال کے ہوئے تو ان کی غیور والدہ نے بیٹے کو پہلا سبق یہ دیا ’’خدا ایک ہے اور وہ سب کا کارساز ہے۔ کوئی شے اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں …دنیا کا ہر شاہ و گدا خدا کا محتاج ہے۔ انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی ذلت نہیں کہ وہ خدا کو چھوڑ کر اپنے ہم جنس کے آگے ہاتھ پھیلائے‘‘۔ جب فرزند قریش نے اپنی زندگی کے چار سال مکمل کرلیے تو مادر گرامی نے دوسرا سبق دیا ’’محمد علم حاصل کرو، علم کے بغیر انسان اور حیوان میں زیادہ فرق باقی نہیں رہتا‘‘۔ آپ کی و الدہ ایک پارسا خاتون تھی اس لیے لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوا دیا کرتے تھے۔ ایک بار دو آدمی ایک وزنی صندوق لے کر آئے اور درخواست کی کہ اسے کچھ دن کے لیے رکھ لیا جائے۔ اس میں کیا ہے؟ فاطمہ بنت عبداللہ نے سوال کیا۔ صندوق میں کپڑے اور کچھ ضرورت کی اشیاء ہیں جواب دیا گیا۔ اسے میرے سامنے کھول کر شمار کرو۔ شمار کے بعد تالا لگا کر وہ صندوق گھر کے سب سے محفوظ حصے میں رکھ دیا گیا۔ کچھ دن بعد ان میں سے ایک شخص آیا اور صندوق طلب کیا۔ امام شافعیؒ کی والدہ نے بلا سوچے سمجھے اسے صندوق دے دیا۔ کچھ دن بعد دوسرا شخص آیا اور اس نے صندوق طلب کیا۔ جب اسے بتایا گیا کہ تمہارا ساتھی صندوق لے گیا ہے تو وہ تلخ ہوگیا۔ بات خاصی بڑھ گئی۔ فاطمہ بنت عبداللہ پریشان ہوگئیں۔ اسی دوران امام شافعیؒ تشریف لائے۔ سارا ماجرہ سنا تو آپ اس اجنبی سے بولے ’’تم دونوں نے مل کر ایک امانت میری والدہ کے پاس رکھوائی تھی۔ اپنے دوسرے ساتھی کو لے آئو، امانت تمہارے حوالے کردی جائے گی‘‘۔ یہ جواب سن کر وہ شخص خاموش ہوگیا اور چلا گیا۔ (جاری ہے)