جانباز کشمیری ہیرو برہان مظفر وانی کے متعلق بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمزنے لکھا ہے کہ برہان اسکول پرنسپل کے بیٹے اور اسکول میں نمایاں نمبرز حاصل کرنے والے کشمیری طالب علم تھے جنہوں نے صرف 15 سال کی عمر میں ہندوستانی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھالئے تھے۔ اور اس کی وجہ ان کے بڑے بھائی خالد وانی پر ہندوستانی فوجیوں کا بے پناہ تشدد تھا۔ خالد وانی کو سال 2010 ء میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی بھرتیاں کرنے کے الزام میں ہندوستانی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔بھائی کی حالت دیکھ کر ہی برہان نے ہتھیار اٹھائے۔ اس کے علاوہ برہان نے دیگر نہتے کشمیریوں پر بھی بھارتی فورسز کے ظلم و ستم دیکھے تھے اسی وجہ سے انہوں نے اتنی کم عمر میں ہتھیار اٹھائے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو دائمی بنانے کیلئے کئی منصوبوں پر عمل کر رہا ہے۔ لیکن بھارتی حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے وہ چاہے مقبوضہ کشمیر میں جتنا پیسہ خرچ کرے وہ کسی طرح کشمیریوں کے دل جیت نہیں سکتا کیونکہ وہ بھارت کی غلامی سے ہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی بھی لالچ آزادی کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکتی۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے فیصلے کو پس پشت ڈال کر ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور کشمیر کے اس بڑے حصے پر قابض ہے۔ جسے دنیا مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانتی ہے۔ بھارت اب اس مسئلہ میں اتنا الجھ چکا ہے کہ ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے باوجود اسے کوئی رستہ نہیں مل رہا۔ یہاں تک کہ اب ریاستی دہشت گردی بھی حالات کو قابو میں نہیں لا سکتی۔ کشمیری بے چارے70 سال کے انتظار کے بعد مایوس ہو کر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جس پر بھارت مزید سیخ پا ہے۔ بھارتی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس تحریک آزادی کو دہشت گردی کے زمرے میں لا کر عالمی سطح پر بد نام کر سکے۔ اس سلسلے میں وہ اسے سرحد پار دہشت گردی کا نام بھی دیتا ہے۔ حالانکہ بھارت خود اپنی پوری ریاستی طاقت کے ساتھ، نہتے کشمیریوں کے ساتھ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اس مقصد کے لئے بھارت نے 8 لاکھ افواج تعینات کر رکھی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئر مین سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس وقت تک مذاکرات نہیں ہو سکتے جب تک وہ مقبوضہ کشمیرکی متنازعہ حیثیت کو قبول نہ کرے۔ ہم مذاکرات کے خلاف نہیں ہیں لیکن مذاکرات حریت کانفرنس کے آئین کے دائرہ کار میں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے اس بات کو یکسر مسترد کر دیا کہ 9/11 کے بعد چونکہ دنیا کے حالات مکمل طور پر تبدیل ہو گئے ہیں اس لئے حریت پسند قیادت کو بھی اپنے طریقہ کار اور پالیسی میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔ دنیا میں ہونیوالی نئی تبدیلیوں کا یہ مقصد نہیں کہ حق پر مبنی حق خودارادیت کے حصول کیلئے جاری جدو جہد اس سے اثر انداز ہو۔ واقعی دنیامیں یہ تبدیلی ضرور پیداہوئی ہے دنیا کی سفاک قوتیں اور زیادہ سفاک ہوگئی ہیں اور مظلوم کو قابض قوتیں زیر کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ بھارت کے ساتھ کوئی بھی شخص بات چیت کرنے کیلئے آزاد ہے۔ لیکن بات چیت کرنے سے قبل انہیں مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ ہوئے سلوک کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ 22 برسوں تک شیخ محمد عبداللہ نے رائے شماری کیلئے جدوجہد کے بعد بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ مرحوم شیخ عبداللہ کو بھی کسی نے نہیں روکا اور ہم بھی کسی کو روک نہیںسکتے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک اندازے کے مطابق روزانہ دو سے تین بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے جن کی تعداد اب تک تقریباً ایک لاکھ ہو گئی ہے۔یہ وہ تعداد ہے جو منظر عام پر آجاتی ہے ورنہ بہت سے ایسے بھی کشمیری شہید ہیں جن کی ہلاکتوں کا ان کے گھروالوں کو بھی نہیں پتا۔ لاکھوں جوانوں کو جیلوں میں بند کر کے اذیتیں دی جارہی ہیں۔ جس کے باعث کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی اور جسمانی معذور ہو چکی ہے۔ بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ عورتوں کو بیوہ کیا گیا۔ اگر بھارت کشمیر سے اپنی فوج واپس بلا لے تو کشمیری بھی سکھ کا سانس لیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان خطے میں دہشت گرد "برآمد" کر رہا ہے اور وہ سفارتی طور پر اپنے اس پڑوسی ملک کو بین الاقوامی برادری میں تنہا کر دیں گے۔ مودی کے جواب میں دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’یہ امر افسوس ناک ہے کہ ہندوستان ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اشتعال انگیز بیانات اور بے بنیاد الزامات لگاکر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔ کشمیر میں 8 جولائی کو نوجوان حریت کمانڈر برہان مظفر وانی کے انڈین فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے بعد سے ہندوستانی فوج کے مظالم میں شدت آگئی ہے اور ابتک 108 سے زائد کشمیری شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ سینکڑوں افراد بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عالمی برادری نے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا ہے اور اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم کے علاوہ کئی ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔