عامر خاکوانی صاحب لاہور سے زنگار لئے شہر اقتدار میں وارد ہوئے کہ جنہیں چاہ ہے یہ زنگار شیشے پرمل کر آئینہ بنالے پارلیمنٹ ہاؤس کو جانے والی شاہراہ پر ایک خوبصورت کثیر المنزلہ عمارت میں ہمیں ’’زنگار‘‘ کی دستیابی کی اطلاع ملی اورہم لنگڑاتے ہوئے قدرے تاخیر سے’’زنگارنامہ‘‘ کی تعارفی تقریب میں شرکت کے لئے لنگڑاتے ہوئے پہنچے تو سامنے اسٹیج پر عامر خاکوانی صاحب ،وفاقی وزیر محمدعلی ،معروف کالم نگاربرادر آصف محمود کے ساتھ براجمان دکھائی دیئے چھوٹے ساہال میں سلیقے سے محدود تعداد میں کرسیاں لگی ہوئی تھیںعامر خاکوانی صاحب تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ شرمائے شرمائے سے بیٹھے تھے ایسی ہی لاج کبھی دولہوں کے چہروں پرعمر قید قبولتے وقت ہوا کرتی تھی خاکوانی صاحب تقریب کے دولہا تھے اور وہ اسی پیڑھی سے ہیں جب لاج ،شرم، مروت،خلوص محض الفاظ نہ ہوا کرتے تھے اوران سے ملنے کے لئے لغتوں کے بوڑھے گھروں میں نہیں جانا پڑتا تھا پھر کیسے ممکن تھا کہ تقریب کے دولہے پر ’’روپ ‘‘ نہ چڑھتا؟ وہ خوش بھی تھے اور مطمئن بھی ،کوئی لکھاری صاحب اولاد ہو اورصاحب کتاب نہ ہو تو اسکا قلق وہی جان سکتا ہے میں نے اور عامر خاکوانی صاحب نے اپنا صحافتی سفر آگے پیچھے ہی شروع کیا تھا وہ آگے بڑھے اور بڑھتے چلے گئے صاحب کتاب بھی ہوگئے اور قابل رشک بھی۔ میں ان پر رشک کرتا ہوا اک کرسی پر بیٹھ گیااو ر دھیان سے سننے لگا تین چار مقررین تھے جو زنگار نامہ کی تعریف کررہے تھے ان کی گفتگو سے لگ رہا تھا کہ انہوں نے واقعی میں زنگار نامہ پڑھ رکھی ہے ،خاکوانی صاحب کی یہ کاوش ہے ہی بڑی خوبصورت، اس کتاب میں سیاست کے سواسب کچھ ہے ، جذبات کی آنچ،تصوف میں گندھی عقیدت،انسان کو تحریک دینے کے لئے قطار میں مودب کھڑے الفاظ، بچوں کی تربیت اور زندگی کے اسباق ۔۔۔ بہت کچھ ہے،خاکوانی صاحب کا انداز تحریر بڑا سیدھا سادا ہے وہ گھما پھرا کر بات نہیں کرتے جو سادگی ان کے مزاج میں ہے وہی انکے قلم میں بھی ملتی ہے انہیں اپنی ماں سے بڑی محبت تھی،میں کم علم آدمی ہوں مجھے محبت اور عقیدت کے درمیان کی منزل کے نام کی خبر نہیں ،خاکوانی صاحب اپنی والدہ کے لئے اسی منزل پرکھڑے ملتے ہیں انہوں نے زنگار نامہ کا انتساب بھی اپنی مرحوم والدہ کے نام ہی کیا ہے انہیں اپنی ماں سے جو محبت ہے اسکا اندازہ تقریب میں ماں جی کے ذکر پر ان کی آنکھوں میں پھیلتی نمی سے بھی ہو گیا،ان کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ،ماحول خاصا جذباتی ہو گیاباہر بادل برس رہے تھے اور یہاں عامر خاکوانی کی آنکھیں ،انہوں نے بمشکل خود پر قابو پایااورپھرجب ناظرین سے مخاطب ہوئے تو جذبات کا تلاطم تھم چکا تھا ،اب سامنے ایک ماں کا لاڈلا بیٹا نہ تھا بلکہ وسیع مطالعہ رکھنے والا کالم نگار،لکھاری اور سوسائٹی کا نباض تھا میں انہیں پہلی بار کسی تقریب میں گفتگو کرتے سن رہا تھا ان کے لہجے میں وسیب کی پٹی کی مٹھاس اور پشتونوں کی سادگی تھی،کم لوگ جانتے ہوں گے عامر خاکوانی صاحب پشتون زادے ہیں ان کے آباؤ اجداد ننگرہار افغانستان کے تھے جنہیں گردش زمانہ افغانستان کے کوہساروں سے چولستان کے صحراؤں میں لے آئی،انکے لہجے کی مٹھاس اور مزاج کی سادگی ان کی شخصیت کو دو آتشہ بناتی ہے ،وہ کوئی دبنگ قسم کے مقرر نہیں ہیں جو جلسوں میں بارود چھڑک کر آگ لگوا دیتے ہیں وہ سادگی سے بات کررہے تھے لیکن اس سادگی میں بھی ان کی کتاب دوستی کا وسیع مطالعہ کا پتہ چل رہا تھاوہ افسوس کر رہے تھے کہ ہمارے’’ آج‘‘ کا کتاب سے رشتہ کمزور ہو گیا ہے ہماری سوسائٹی کے فلٹر ناکارہ ہوچکے ہیں، جاہل آگے بڑھ جاتے ہیں پتہ نہیں ہمارا کل کیسا ہوگا؟ یہ وہ سچ ہے کہ اب جس پر کوئی بات کرنے کو بھی وقت کا زیاں سمجھتا ہے ،ہمارے ملک میں شرح خواندگی شرمناک اور افسوسناک ہے، 2019ء میں وفاقی وزارت تعلیم نے شرح خواندگی سے متعلق دس سالہ رپورٹ جاری کی تھی جس میں ہم خطے کے نو ملکوں میں سے آٹھویں نمبر پر تھے ،صرف جنگ زدہ افغانستان واحد ملک تھا جس میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ہم سے کم تھی ،سرکار کہتی ہے ہمارے ملک میں شرح خواندگی 57فیصد ہے چلیں جی ایسا ہی ہوگا ،مان لیتے ہیں کہ ہماری نصف آبادی یعنی دس کروڑ سے زائد پاکستانی خواندہ ہیں اس پر بھی ہماری کتب دوستی کا حال یہ ہے کہ ہمارے یہاں شائع ہونے کتابیں اٹھا کر دیکھیں چند ایک کو چھوڑ دیجئے ہر کتاب کی تعداد اشاعت ایک ہزار سے زیادہ نہ ہوگی اور ان ایک ہزار کتابوں کی فروخت بھی مسئلہ بن جاتی ہے ہم لوگ پانچ پانچ ہزار کے پیزے ہڑپ کر جاتے ہیں ،فیملی کے ساتھ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں جائیں تو ناف سے حلق تک برگر اور ہاٹ ونگز ٹھونس لیتے ہیں،پیروں کے لئے دس ہزار کا جوتا تو عام سی بات ہے لیکن ہماری انگلیاں کتابوں کے لمس سے ناآشنا رہتی ہیں، اس رویئے پر تو ہمیں شرمسار ہوناچاہئے،ہم کتابیں نہیں پڑھتے اس لئے ہمیں بولنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا دل دکھا دیتے ہیں سامنے والا زورآور ہو تو اسکے ہاتھوں سے خود کو دکھا دیتے ہیںجنہیں لیڈر کہا جاتا ہے ان کی گفتگو سن لیں لگتا ہے چنڈو خانے میں بیٹھے ہیں،آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آپ میں سے کتنے لائیبریوں کا راستہ جانتے ہیں ؟ حال یہ ہے کہ جو گنتی کے کتب خانے تھے وہ بھی بند ہورہے ہیں،کراچی میں کبھی تیس کتب خانے تھے آج گنتی کے چند رہ گئے ہیں یہ تحریر لکھتے ہوئے میں ذہن پر زور دے رہا ہوں کہ مجھے کوئی ایک کتاب کی تعارفی نشست یاد آجائے جس میں وزیر اعظم ،صدرمملکت شریک ہوئے ہوں لیکن نہ ۔۔۔ کیوںکہ انکی ترجیحات میں کہیں کتاب ہے ہی نہیں ،مثال کہاں سے بنے افسوسناک بات یہ کہ یہ کلچر صرف پاکستان کا ہی نہیں خیر سے اس حمام میں سارے اسلامی ممالک ننگے ہیں ،کتابوں کی فروخت کے حوالے سے دنیا کے اٹھائیس سرفہرست ملکوں میں سے ایک بھی مسلمانوں کا ملک نہیں جبکہ اسی قوم کے آباؤاجداد کی چھ لاکھ کتابیںانگلستان کی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہیں ،یہ وہ ذخیرہ تھا جسے انگریز یہاں سے جاتے ہوئے ساتھ لے گیااورہمارے پاس جہل چھوڑگیا جسے ہم چھوڑنے پر تیار نہیں۔