رواں ہفتے بھارت نے مزید دس ہزار فوج مقبوضہ کشمیر بھیج دی۔پچاس ہزار پہلے ہی وہاں ہے۔ برطانوی ریڈیو نے لکھا ہے کہ مقبوضہ وادی میں دو طرح کی قیاس آرائی ہے۔ ایک یہ کہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے والی ہے جس پر احتجاج کا ڈر ہے۔ دوسری یہ کہ بھارت کو خطرہ ہے کہ پاکستانی علاقے سے جہادی عناصر وادی میں کوئی دہشت گردی کرنے والے ہیں۔ دوسری قیاس آرائی تو یکسر مضحکہ خیز ہے۔ پاکستان اب تبدیل ہو چکا ہے۔ جہادی رہے نہ عناصر‘ کوئی کارروائی کہاں سے ہوگی۔ ہاں‘ بھارت خود ڈرامہ کرکے الزام کالعدم عناصر پر ڈال دے تو اور بات ہے۔بظاہر پہلی قیاس آرائی ہی درست لگتی ہے یا پھر شاید کوئی اور وجہ ہو یا کوئی جارحیت کی سوچ۔ خصوصی حیثیت تو بھارت نے بہرحال اور بہر قیمت ختم کرنی ہے۔ وہ وادی میں نوجوانوں کا بے دریغ قتل عام اور پیلٹ گن کا استعمال کر کے تحریک آزادی کو بڑی حد تک دو تین اضلاع تک محدود کر چکا ہے یعنی ماضی کے مقابلے میں وہ فضا کم خطرناک سمجھتا ہے۔ عالمی سطح پر اسے ذرہ برابر بھی مخالفت کا خطرہ یا اندیشہ نہیں۔ ماضی میں ایران اور سعودی عرب ایسی کوششوں کی رسمی مخالفت کیا کرتے تھے‘ اب خیر سے یہ دونوں ملک اپنے اپنے انداز میں مودی کے یار ہیں۔ ٭٭٭٭٭ آئینی حیثیت ختم ہونے کا مطلب ہو گا‘ بھارتی شہری مقبوضہ وادی میں آباد کاری کریں گے۔ بی جے پی بلکہ سنگ پریوار کے دستے پہلے ہی سے اس کی تیاری کر چکے ہیں‘ بھارت کو بہت بڑا پاپڑ نہیں بیلنا پڑے گا۔ چند برسوں میں وہ دو چار ملین ہندو اور سکھ یہاں آباد کر دے تو وادی میں مسلمان اقلیت میں چلے جائیں گے۔ایک سخت ظالمانہ طریقہ ڈیموگرافی بدلنے کا وہ آسام میں کر رہا ہے جہاں 30فیصد مسلم آبادی اس لحاظ سے پریشان کن ہے کہ یہ صوبہ بھارت کا بہت اہم اور بڑا صوبہ ہے۔وہاں طریقہ یہ اپنایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی بھارتی شہریت منسوخ کی جا رہی ہے اور انہیں حکم دیا جا رہا ہے وہ بنگلہ دیش چلے جائیں۔ پچھلے دنوں ایک جونیئر فوجی افسر کی شہریت بھی ختم کر دی گئی جو ساری عمر سرحدوں پر رہا اور حال ہی میں ریٹائر ہوا ہے۔ یعنی ایک غیر ملکی شہری بھارتی فوج میں کئی عشرے ملازم رہا۔ صرف مسلمان ممالک ہی کی طرف سے بھارت کو سازگاری نہیں ہے۔ امریکہ کی پوری تھپکی ہے۔ آج کل ٹرمپ صدر ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کے دورہ پاکستان میں ’’ثالثی‘‘ کی بے معنی حد تک معنی خیز پیشکش کی۔ جس پر ہمارے ہاں یہ خوش فہمی پھیلائی گئی کہ کشمیر کا مسئلہ پھر عالمی اور امریکی ایجنڈے پر آ گیا ہے۔ لگتا ہے انصاف اللغات میں عالمی کے معنی بھی بدل گئے اور ایجنڈے پر آنے کے بھی۔ پاکستان کی حد تک امریکی ایجنڈے کا صفر حد تک تعلق بھی کشمیر سے نہیں ہے۔ اہمیت افغان مسئلے کو ہے لیکن بوجوہ بسیار اس کا اونٹ پسندیدہ کروٹ لیتا ہوا دور دور تک نہیں دیتا۔ ٭٭٭٭٭ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے لئے کہیں بھی گرم جوشی نہیں ہے۔1965ء سے پہلے صورتحال اور تھی۔ مسلمان ممالک میں سے لگ بھگ نصف(تب ان کی گنتی دس بارہ سے زیادہ نہیں تھی‘ باقی نو آبادیاں تھے) پاکستان کے حامی تھے۔ خاص طور سے انڈونیشیا‘ ایران اور سعودی عرب۔ 1965ء ہی میں ایوب خاں نے مادر ملت کو صدارتی الیکشن میں جعلسازی سے ہرایا(اور پھر مبینہ طور پر کچھ عرصے بعد شہید کرا دیا)اس جعلی شکست پر سخت عوامی ردعمل کو بھانپ کر انہوں نے آزادی کشمیر کا ڈرامہ رچایا جو حقیقی مشکل میں بدل گیا۔ سوویت یونین نے معاہدہ تاشقند کر کے ہماری مدد کی۔ اس جنگ کے بعد سعودی حمایت بھی ٹھنڈی پڑ گئی اور ترکی اور انڈونیشیا کی بھی۔ ایران بدستور ہمارا حامی رہا۔ 1971ء میں دردناک واقعات ہوئے اور ایران بھی ہم سے دور ہو گیا۔ باقی دنیا میں بھی کشمیر پر ’’اصولی حمایت‘‘ کمزور پڑ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے وزیر اعظم بن کر مسئلہ کشمیر کو کم از کم اصولی حد تک زندہ کیا لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے کہ تاشقند اور شملہ معاہدوں کے تحت کشمیر عالمی نہیں‘ دو طرفہ مسئلہ بن چکا تھا۔ بہرحال بھٹو صاحب کے دور میں اتنا ہوا کہ اسلامی ملکوں کا بلاک بنا جس کا سفارتی فائدہ پاکستان کو تھا۔ انہیں ہٹا کر ضیاء الحق آئے اور ساتھ ہی افغان مسئلہ چلا آیا۔ دنیا سوویت یونین کے خلاف متحد ہو چکی تھی اور بھارت الگ تھلگ کونے سے جا لگا تھا۔ قدرتی طور پر کشمیر کاز پھر سے جاگ اٹھا۔ لیکن فائدے کا یہ زبردست موقع ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار نے جہاد کشمیر شروع کر کے گنوا دیا۔ جہادکشمیر کی وجہ سے دنیا آزادی کشمیر کی مخالف ہوتی گئی اور بھارت میں بھی مسلمان دشمنی کی وبا پھوٹ پڑی۔ وجہ سنگ پریوار نے یہ بتائی کہ پہلے کشمیری بھارتیوں کومار رہے تھے‘ اب مسلمان ہندوئوں کو مار رہے ہیں۔ حزب المجاہدین کو احساس ہوا تو اس نے علانیہ توبہ کر لی۔ کارگل کی جنگ نے دنیا بھر میں تحریک آزادی کشمیر کا چہرہ ہی بدل دیا۔ دنیا اسے ’’دہشت گردی‘‘ قرار دے رہی تھی اور جارحیت بھی۔ یوں مسئلہ کشمیر کے تابوت میں آخری کیل پرویز مشرف نے ٹھونکی۔ مقبوضہ کشمیر کی طرف سے آنے والے دنوں میں پاکستان کے مسائل بڑھنے والے ہیں۔ عمران خاں سارے عوام کو ہائے روٹی‘ ہائے پانی‘ ہائے بجلی کی تال پر نچا رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بڑی گڑ بڑ ہوئی تو قومی یکجہتی کے لئے کون اٹھے گا۔ بہرحال ‘ خوشی ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی قلمکار اورصدا کار‘ عالمی ایجنڈے پر کشمیر آ گیا‘ کے نقارے بجا رہے ہیں۔