یہ کالم پڑھنے کے بعد اگر آپ کے پاس چند منٹ ہیں تو ایک جگہ سکون سے بیٹھ جائیں۔ اتوارکا دن ہے، عام طور سے لوگ گھر پر ہی ہوتے ہیں۔ٹی وی دیکھ رہے ہیں، بستر پر لیٹے ہیں، کہیں کسی اور جگہ اخبار میں کالم یا موبائل پر پڑھ رہے ہیں تو صرف چار پانچ منٹ نکالیں۔ دیوار سے پشت لگا لیں، کرسی پر بیٹھے ہیں تو ریلیکس ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ اپنی پچھلی زندگی پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ماضی کیسا رہا؟کیا اچھا ملا اور کیا منفی حاصل ہوا؟ ہر ایک کا تجربہ مختلف اور منفرد ہوگا، مگر ایک بات ضرور مشترک ہوگی کہ زندگی میں اچھے اور برے واقعات کا امتزاج ہی ملے گا۔ممکن ہے کسی کی زندگی میں ناخوشگوار، تکلیف دہ واقعات زیادہ ملیں، مگر ان کے پاس بھی ایسے چند ایک دل خوش کن واقعات، مسرور کن لمحات ضرور ملیں گے جن کا تصور تک دل کو سرشار کر دے۔ یہی زندگی ہے۔شر اور خیر کا مجموعہ۔ اچھے اور برے دونوں طرح کے واقعات۔ اب فرض کریں کہ آپ کی یاداشت سے تمام مثبت، اچھے، خوشگوار واقعات ختم ہوجائیں۔ زندگی میں کسی نے آپ کے ساتھ بھلائی ، احسان، کچھ اچھا کیا ہو، اس کا یہ فعل ہماری میموری سے ڈیلیٹ ہوجائے۔ تب ہماری یاداشت کا خزانہ کس قدر دکھی، تکلیف دہ اور تاریک ہوجائے گا۔ ہمیں لگے گا کہ دنیا میں صرف برائیاں ہی ہوتی ہیں، صرف برے لوگ ہی ہمارے آس پاس بستے ہیں، جن سے کبھی خیر کی امید نہیں۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ایسی صورت میں اپنے بچوں، نئی نسل کو تربیت دینے، کچھ سکھانے کے لئے ہمارے پاس کیا بچے گا؟ کیا ہم انہیں صرف دھوکہ ، چالاکی، فریب ، بدمعاشی اور چوری سکھائیں گے؟ ہماری یاداشت میں جب کوئی مثبت سبق ہوگا ہی نہیں تو اپنی اگلی نسل کو کیا سکھائیں گے؟ اس نکتہ پر چند لمحے کے لئے سوچیں اور پھر دیکھیں کہ کیا ہم لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پراپنے سماج میں مسلسل منفی چیزیں، مایوسی اور تاریکی نہیںپھیلا رہے؟آخر کیوں ؟کیا اس لئے کہ لوگ منفی واقعے کو دلچسپی اور حیرانی سے دیکھتے ہیں ، اسے خبر سمجھتے ہیں؟ ہمارامیڈیا ایسا اس لئے کرتا ہے کہ اسے لوگوں کو چونکانا اور اپنی سکرین سے چپکانے کے لئے منفی مگر حیران کن خبروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ نیوز چینلز دیکھنے بیٹھیں تو بسا اوقات گھنٹے دو گھنٹے بعد لگتا ہے جیسے پاکستان میں صرف جرائم ہی ہوتے ہیں اور ہر جگہ ظالم، چور، خائن اورمقدس رشتوں کی دھجیاں اڑانے والے ہی بیٹھے ہیں۔ظاہر ہے یہ تاثر درست نہیں۔یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں ہرگز پاکستان سماج میں موجود برائیوں سے انکار نہیں کرتا۔ انہیں چھپانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ان کا سدباب کیا جائے، مجرموں کو سزائیں ملیں،ایسے اقدامات ہوں کہ جرم کی راہ پر چلنے والوں کی تعداد کم ہوسکے۔ یہ سب اہم اور ضروری ہے۔سماج میں مگر بہت سے اچھے پہلو، بے شمار مثبت، روشن، جگمگاتے ہوئے واقعات آئے روز ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی نمایاںنہیں کرتا۔ امید دلانے، خواب جگانے والی ان سچی کہانیوں کو بھی میڈیا پر آنا چاہیے۔ میڈیا نہیں تو سوشل میڈیا پر ہی انہیں جگہ ملنی چاہیے۔ یہ بھی سچ اور ہمارے سماج ہی کا ایک چہرہ ہے۔کیا ضروری ہے کہ ہم ہر وقت تاریک عدسوں والی عینک پہن کر روشن دن کو تاریک سمجھتے رہیں۔ کبھی یہ عینک اتار کر دنیا کو ویسے دیکھا جائے ، جیسی وہ ہے۔مثبت ومنفی واقعات کا امتزاج ۔جس میں شر کے ساتھ دلکش، امید افزا خیر اور اچھائی بھی موجود ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا کے ایک نوجوان بلاگر طاہر محمود نے اپنی زندگی کے چند ایسے مثبت واقعات جمع کر کے پوسٹ لکھی، اسے اپنی وال پر شیئر کیا تو بہت اچھا ریسپانس ملا۔ تب سوچا کہ اسے اپنے قارئین سے بھی شیئر کیا جائے۔آپ لوگ اپنے تجربات، مشاہدات مجھے ای میل یا فیس بک ان باکس میں بھیج سکتے ہیں۔ضرورت محسوس ہوئی تو اس پرمزید لکھوں گا۔اب اس تحریر کو دیکھئے، جسے پڑھ کر میرے اندر بھی امید کے دئیے روشن ہوگئے ۔ طاہر محمود لکھتے ہیں : ’’چند دن قبل میرے ایک جاننے والے کا ٹچ موبائل سواریوں والی گاڑی میں رہ گیا۔ انہوں نے کسی سے موبائل لے کر اپنے نمبر پر کال کی تو ڈرائیور نے کال ریسیو کی اور موبائل ایک دکان پر رکھوا دیا. انہوں نے جا کر وہاں سے لے لیا۔ میرا اپنا موبائل ایک دفعہ گم ہو گیا تھا. دوسرے نمبر سے کال کی تو ایک بندے نے کال ریسیو کی اور جگہ بتائی۔وہاں جا کر ان سے موبائل وصول کر لیا۔ ’’تقریباً بیس سال پہلے کی بات ہے کہ بارہ تیرہ سال کے تین بچوں کو کھیلتے ہوئے ایک انگوٹھی ملی۔گھر جا کر دکھائی تو پتہ چلا کہ سونے کی اور اچھی بھلی قیمت کی ہے۔والدین نے آس پاس کے گھروں میں بات کی تو مالک کا پتہ چل گیا، اسے انگوٹھی لوٹا دی۔( وہ بچے میں اور میرے دو کزن تھے۔ ) ’’ایک سال پہلے میں کالج کے طلباء کے ساتھ ٹور پر اسلام آباد گیا۔ وہاں ایک مسجد میں نماز پڑھی تو ہمارے ایک ساتھی کی تقریباً چالیس ہزار کی قیمتی گھڑی وضو کرتے ہوئے وہاں رہ گئی۔ کافی وقت کے بعد اسے یاد آیا۔ہم فوراً واپس گئے۔ادھر کسی نے گھڑی اٹھا کر امام صاحب کو دے دی تھی، امام صاحب نے ہم سے نشانی پوچھ کر گھڑی ہمارے حوالے کر دی۔اسی طرح ایک دفعہ میرا لیپ ٹاپ والا بیگ ایک دکان پر رہ گیا۔تقریباً پچپن ہزار کا لیپ ٹاپ تھا۔ میں واپس گیا تو دکاندار نے بیگ سنبھال رکھا ہوا تھا۔ ’’ میں ایک دفعہ صبح صبح اپنی گاڑی مکینک کے پاس چھوڑ آیا۔دوپہرکو گاڑی واپس لینے گیا تو اس نے صرف تین سو روپے مانگے۔ کام کی نوعیت دیکھتے ہوئے میرا اندازہ تھا کہ کم از کم تین چار ہزار کا بل بنے گا۔ جب میں نے حیرانگی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ معمولی سا نقص تھا اور صبح ہی تھوڑی دیر میں دور ہو گیا تھا۔ وہ چاہتا تو دھوکہ دے کر تین چار ہزار روپے لے سکتا تھا۔ ’’ ایک واقعے میں رات گیارہ بجے کے لگ بھگ بائیک اور ڈمپر آمنے سامنے ٹکرا گئے۔بائیک والا شدید زخمی ہو گیا۔ لوگوں نے فوراً اٹھایا اور ہسپتال لے گئے۔ بندے کی جان بچ گئی۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اگر مریض کو لانے میں مزید کچھ دیر ہو جاتی اور خون مزید نکل جاتا تو مریض نہ بچ پاتا۔ یہ لورہ چوک ہری پور کا واقعہ ہے۔ اسی طرح ایک اور واقعے میں دو موٹر سائیکل آپس میں ٹکراگئے، چار بندے شدید زخمی ہو گئے۔ لوگ انہیں فوراً اٹھا کر ہسپتال لے گئے. ان پر پاس سے خرچہ بھی کیا اور خون کی ضرورت پڑی تو خون بھی دیا۔ چاروں کی جان بچ گئی۔ایک اور حادثے میں ایک راہ گیر شدید زخمی ہو گیا۔یہ قصبہ تھا، وہ لوگ اسے دوسرے شہر ایبٹ آباد لے گئے۔اپنے پاس سے اچھا بھلا خرچہ کیا، کافی سارا وقت بھی دیا اور اپنا خون تک دیا، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی زخمی کو نہیں جانتا تھا۔ ’’ میرے ایک جاننے والے کا اپنی غلطی سے حادثہ ہو گیا،دو دن بعد ہوش آیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کو کچھ لوگ بروقت ہسپتال لے آئے تھے اور آپ کے علاج کے لیے بیس ہزار روپے بھی دے گئے۔میرے جاننے والے کی بعد میں اپنے ان محسنوں سے کبھی بھی ملاقات تک نہیں ہوئی۔ ’’ ایک دوست نے واقعہ سنایا کہ ان کے جاننے والے کی بائیک گاڑی سے ٹکرا گئی۔ گاڑی والے کی کوئی غلطی نہیں تھی،مگر اس نے اپنی قیمتی گاڑی ادھر ہی چھوڑی اور موٹرسائیکل سوار کو دوسری گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔ زخمی سیریس تھا، مگر بروقت طبی امداد ملنے سے اس کی جان بچ گئی۔اسے تقریباً دس دن بعد ہوش آیا۔اس دوران گاڑی والے بندے مسلسل اس کے ساتھ رہے اور اس کا لاکھوں روپے کا خرچہ بھی برداشت کیا۔ حالانکہ ان بیچاروں کی کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں تھی اور نہ ہی کسی نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ انہوں نے یہ سب محض انسانی ہمدردی سے کیا۔ ’’یقین مانیں کہ یہ ان ہزاروں میں سے صرف چند واقعات ہیں جن سے میں خود ذاتی طور پر واقف ہوں. ایسے سینکڑوں واقعات پاکستان میں روزانہ رونما ہوتے ہیں مگر ان کو کبھی بھی نمایاں نہیں کیا جاتا۔ ان کی کوئی کوریج بھی نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا صرف منفی کو دیکھنے، سننے اور بولنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں مثبت میں بھی منفی نظر آنے لگتا ہے۔ ’’ہمارے میڈیا نے پاکستان کے عوام کے صرف منفی پہلو دکھا دکھا کر لوگوں کے دل و دماغ میں منفیت بھر دی ہے، لہذا ہم ہر چیز کو اسی منفی ، تاریک عدسوں والی عینک سے دیکھتے ہیں ۔ عالمی سطح پر بھی اسی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی ہر خوبی سے محروم قوم ہے۔ دوسروں کی مدد کاجتنا قوی جذبہ اس قوم میں ہے شاید ہی کسی دوسری میں ہو، بس انہیں شعور دلانے، حوصلہ افزائی کرنے اور صحیح رخ پر چلانے کی ضرورت ہے۔مجھے معلوم ہے کہ بعض اوقات اس کے برعکس واقعات بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں مگر میں ان کا ذکر نہیں کر رہا کیونکہ ان کا دن رات اور ہر وقت ذکر کرنے کے لیے ہمارا میڈیا اور دیگر بہت سارے حضرات پہلے سے ہی موجود ہیں۔‘‘