سیدعلی گیلانی ایک ایسے گوہر نایاب تھے کہ جن کے تب وتاب سے ہر کشمیری مسلمان کا سر فخر سے بلند ہے۔ بلند عزم ور جہدمسلسل کے حامل اس عظیم لیڈر اورنابغہ روز گار شخصیت نے اپنی بصیرت ، فکر و دانش، علم و حکمت اور فہم و فراست کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ جد وجہد آزادی کشمیرمیںان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سیدعلی گیلانی نے سرزمین کشمیرپرسب سے پہلے بھارتی رام راج ، ہندوانہ فاشزم اور برہمنی فسطائیت کو طشت از بام کیا۔یعنی انہیں یہ سعادت بھی حاصل رہی کہ اپنے برادران وطن اسلامیان کشمیرکوبھارت کے خلاف پنجہ آزامائی کاشعور بخشا ۔سید علی گیلانی کشمیرکی عسکری تحریک’’ مسلح جدوجہد‘‘کے پشت بان بن کرکھڑے ہوئے اور جہادکشمیر کی کامیابی کے لئے آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔سید علی شاہ گیلانی جہاں تحریک آزادی کشمیر کی پہچان تھے وہیں آپ کشمیر میں ’’نظریہ الحاق پاکستان‘‘ کی سب سے بڑی آواز تھے۔ کشمیر کی سیاسی بساط پرآپ کم و بیش پون صدی سے چھائے رہے۔جسے دیکھ کردشمن بھی اس امرکااعتراف کرنے پرمجبورہے کہ در اصل سید علی گیلانی کی شخصیت کا آئین بیباکی ہے ۔ آپ کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ آپ ارض کشمیرپرہندوبھارت کے جبری قبضے اوراسکی جارحیت کے زہرہلالِ کو قند کہنے کے روادار نہیں تھے۔ سید علی گیلانی کو جدوجہد آزادی کے ساتھ والہانہ عشق ، نوجوانان ملت کشمیر کے ساتھ محبت، حصول منزل کی فکر، دشمن کے منصوبوں پر گہری نظر، تحریکی تقدس کا احساس تھا ۔ آپ مسئلہ کشمیرپربھارت کے مکرو فریب اوردھوکہ دہی کوطشت از بام کرتے رہے، ساتھ ساتھ ارباب پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر بے مقصد و بے معنی لچک پر ہمیشہ آواز حق بلند کرتے رہے ،سید علی گیلانی نہ صرف تحریک آزادی کشمیرکے حوالے سے بے باک اوریکسوتھے بلکہ وہ ملت اسلامیہ کشمیر کی تحریک کے سفارتی محاذپرکسی کی خوشنودی اور رضامندی یا خفگی اور ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر راست اپروچ اور صحیح موقف اختیار کیے رہے۔سید علی گیلانی مرحوم نے جوانی میں جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ پیرانہ سالی میں بھی عز م وہمت کے ساتھ اس پر گامزن رہے۔افسوس کہ آپکی حق گوئی پر آپ سے نہ صرف بیگانے ناخوش بلکہ اپنے بھی آپ سے خفا تھے لیکن آپ خاک و خون میں لت پت سر فروشوں، بے سہارے والدین، عصمت دریدہ خواتین، بے خانماں ستم رسیدوں، نوبیاہی بیوائوں، اسیروں، زخمیوں، مہاجروں، مظلوموں کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ آپ نے ان کے آنسوؤں، ان کی آہوں اور سسکیوں کو زبان بخشنے اور ان کی ترجمانی میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ یہ آپ کی جرأت رندانہ اور مومنانہ بیباکی کی واضح دلیل تھی۔ مشرف کے دور آمریت میں کشمیریوں کی جدوجہد کے بارے میں تاریخی موقف میں یکسر تبدیلی لانا، ایک معتبر تحریکی قائد کو (side line)کرنے کی حماقت کرنا تحریکی کارکنان کیلئے غیر معمولی سیاسی اور سفارتی نوعیت کی آزمائش تھی۔ امریکی دبائو پر مشرف کا دہلی کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے ملت اسلامیہ کشمیرکی فصیل میں نقب زنی کشمیری مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کیلئے دشمنان اسلام کی طرف سے وضع کردہ اصطلاح’’ماڈریٹوں‘‘ کی حوصلہ افزائی ان آزمائشوں میں سے ایک کڑی آزمائش تھی۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحریکوں کی ترقی میں شخصیات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ مذہبی اور سیکولر دونوں قسم کی تحریکوں پر یہ بات صادق آتی ہے۔ اصول کو جب موزوں اور موافق شخصیت میسر آتی ہے تو تحریک ہمہ جہت اور وسعت پذیر بن جاتی ہے۔ یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ سید علی گیلانی کی روح کی گہرائیوں میں کشمیر کی تحریک آزادی کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدگی سے سوچتے رہے۔ ان کے لائحہ عمل کی تائید عالمی سطح کے دانشوروں اور سیاسی راہنمائوں کے افکار اور طریقۂ کار سے ہوتی ہے۔ آپ مسئلہ کشمیر کو اصولی موقف کے مطابق حل کرانے کیلئے کسی بھی مشکل اور خطرے کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھے۔ سید علی شاہ گیلانی کیلئے کشمیر کا تنازعہ سوہان روح کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ ہر آہ میں اس دردوکرب کا اظہار کرتے تھے۔ جس طرح ایک سلیم الفطرت اوربے لوث عاشق کی ہر ادا سے جذبۂ عشق چھلکتا ہے اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، جلوت و خلوت میں، اسیری اور آزادی میں، مسجد و محفل میں، عوام میں خواص میں، حاکم اور محکوم کے سامنے، شادی اور غمی غرض ہر جگہ اور ہر حال میں سید علی شاہ گیلانی اپنے اس درد کا اظہار کرتے رہے۔ گویا انہوں نے تحریک کے سارے درد کو اپنے حساس دل کے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ اس درد کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی آہ سے زخموں کو زبان مل گئی اور برف کے گالے بھڑکتے شعلوں میں ڈھل گئے۔ آپ سیاست پر بات کرتے یا معاشرت پر، آپ کے مخاطب غیر مسلم حکمران ہوں یا مسلم ممالک پر مسلط حکمران آپ کو جس تک بھی بات پہنچانی مقصود ہوبے لاگ توحید کی تبلیغ کرنی ہو یا دانشوران قوم کی مرعوبیت اور مراعات خواہی کا المیہ منظر عام پر لانا ہو، آپ حق بات کہہ دیتے تھے۔ سید علی شاہ گیلانی نے اندھی تقلید کے بجائے ہمیشہ اصول کو مقدم رکھا۔اسی لئے انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے خلاف مشرف کے ارادوں و اعلانات اور اقدامات کا جائزہ لیکر تحریک مزاحمت کو نیلام ہونے سے بچانے کا عزم صمیم کرکے اس ہمہ جہت سیلاب کے سامنے کوہ گراں کی صورت کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا۔ آپ نے نہ صرف دہلی میں 17 اپریل2005 کو مشرف کی مصلحت آموزی سننے کے بعد ان کو حقیقی اور بنیادی موقف پر کسی مرعوبیت کے بغیر ڈٹے رہنے کا مشورہ دیا اور اپنے فولادی عزائم سے آگاہ کیا۔ آپ نے ہمیشہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں صاف طور پر مشرف کی غیر ضروری اور نقصان رساں لچک سے کشمیرکے سواداعظم کو بروقت آگاہ کرتے ہوئے بھارت اوراس کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کو مایوس کردیا ۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جدوجہد آزادی کی آبیاری کرتے ہوئے سید علی شاہ گیلانی کا بھارت اور کشمیر میں بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے سے کبھی نہیں کترائے۔